بلدیاتی الیکشن کے نتائج ۔۔۔کیا عمران خان کا بیانیہ جیت گیا؟

تحریر: عمران اعظم

اسلام آباد: خیبرپختونخواہ بلدیاتی الیکشن کے دوسرے مرحلے کے اب تک کے موصول نتائج کےمطابق صوبے کی حکمران جماعت تحریک انصاف کو واضح برتری حاصل ہے اور وہ 50 فیصد نشستیں جیت چکی ہے۔ پہلے مرحلے کی فاتح جے یو آئی دوسرے نمبر پراور تحریک انصاف بڑے سیٹ بیک کیساتھ تیسرے نمبر پر ہے ، نون لیگ کے سرکرہ رہنماوں کے بچے بھی اپنی نشستیں ہار گئے ہیں جبکہ پیپلزپارٹی کی سندھ سے باہر بدترین کارکردگی کا سلسلہ بدستور جاری ہے ۔

 اب سوال یہ ہے کیا واقعی یہ جیت عمران خان کے تازہ ترین مذہبی اور امریکہ مخالف بیانیے کا نتیجہ ہے جسے عوام نے ہاتھوں ہاتھ لیا ہے یا اس کے پیچھے دیگر عوامل بھی کار فرما ہیں۔ کوئی شک نہیں پاکستان میں ہر دور میں مذہب کارڈ اور امریکہ مخالف بیانیہ قبول کیا گیا لیکن اس کا اثر قومی سیاست پر تو ہو سکتا ہے بلدیاتی الیکشن پر نہیں۔ مقامی حکومتوں کے انتخابات میں کوئی بیانیہ کارگر ثابت ہوتا ہے نہ کسی سیاسی جماعت کا منشور،لوکل باڈیز انتخابات میں فتح اور شکست کے محرکات 80 فیصد مقامی ہوتے ہیں۔

بلدیاتی الیکشن چاہیے جماعتی بنیادوں پر ہوں یا غیرجماعتی بنیادوں پر،سب سے پہلی جنگ مقامی سطح پر برادریوں اور خاندانوں کی ہوتی ہے، چاہیے سیاسی وابستگی کتنی ہی مضبوط کیوں نہ ہو بلدیاتی انتخابات میں اپنی برادری کے مخالف امیدوار کی جیت اپنی ناک کٹنے کے مترادف سمجھی جاتی ہے ، یہی وجہ ہے بلدیاتی انتخابات میں بڑی تعداد میں آزاد امیدوار بھی جیت جاتے ہیں۔ اس با ر بھی یہی ہواکہ تحریک انصاف کے بعد جیتنے والوں کی دوسری بڑی تعداد آزاد امیدواروں کی ہے۔

 خیرپختونخواہ بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلے میں تحریک انصاف کو غیر متوقع شکست ہوئی تو کیا ہم اسے مولانا فضل الرحمان کے بیانیے کی فتح قرار دے سکتے ہیں جس میں وہ عمران خان کو کٹھ پتلی ، سلیکٹیڈ اور یہودی لابی کا ایجنٹ قرار دیتے رہے ہیں، ایسا ہز گز نہیں تھابلکہ اس کی وجہ مقامی محرکات کیساتھ حکمران جماعت کے آپسی اختلافات تھے۔

پشاور شہر سمیت اہم نشستیں ہارنے کے بعد حکومت کی آنکھیں کھلیں اور وزیر اعظم نے سخت برہمی کا اظہا رکرتے ہوئے تمام تنظیمیں توڑ کر نئی تنظیم سازی کی ، پرویز خٹک کو صوبائی صدر بنایا گیا اور سوات سے تعلق رکھنے والے وزیر اعلیٰ محمود خان کو بھی آخری وارننگ دیتے ہوئے دوسرا مرحلہ جیتنے کا ٹاسک دیاگیا۔  پہلے مرحلے میں ٹکٹس کی غیر منصفانہ تقسیم پر سخت ردعمل کے بعد یقینی طور پر دوسرے مرحلے میں ٹکٹوں کی تقسیم میں بہترلائی گئی ۔ اس کیساتھ صحت کارڈ کی سہولت کو ترجیح بنیادوں پر ان علاقوں میں پہنچایا گیا ، وزیر اعظم اور وفاقی وزراء بھی الیکشن کمیشن قوانین کی کھلم کھلا خلاف ورزی کرتے ہوئے ان علاقوں میں بھرپور جلسے کرتے رہے اور بڑے ترقیاتی منصوبوں کا اعلان کیا گیا۔ اپوزیشن رہنما بھی جلسے کرتے ہوئے لیکن ان کے پاس سوائے وعدوں کے دینے کو کچھ نہیں تھا۔

 تحریک ا نصاف نون لیگ کے مقابلے میں ایبٹ آباد شہر کی مئیر کی نشت جیت گئی جو بڑی کامیابی ہے لیکن ساتھ ہی مانسہرہ شہر اور تحصیل بالاکوٹ کی مئیر شپ تحریک انصاف ہار گئی ۔ اگر ساری بات بیانئے کی ہے تو یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک دوسرے سے باہم متصل ایک علاقے میں بیانیہ جیت گیا تو دوسرے میں پذیرائی کیوں نہیں ملی ؟

 یوں یہ نتائج حسب توقع تحریک انصاف کے حق میں آئے لیکن اس کامیابی کو تازہ ترین بیانیے سے جوڑنا درست نہیں تاہم اگر عمران خان اس بیانیے کولیکر چلتے رہے تو آئندہ عام انتخابات میں انہیں اس کا کسی حد تک فائدہ ضرورہوسکتاہے۔

Comments are closed.