آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے مجھ پر نواز شریف اور ایاز صادق نے نام لے کر تنقید کی جسے برداشت کیا لیکن ریاستی اداروں اور ملک کے خلاف ہرزہ سرائی کسی صورت برداشت نہیں کی جائے گی۔
قومی سلامتی سے متعلق پارلیمانی کمیٹی کے اجلاس کی اندرونی کہانی سامنے آ گئی، ملک کی سیاسی اور عسکری قیادت نے امریکا کو ہوائی اڈے نہ دینے، خارجہ پالیسی اور قومی سلامتی کے معاملات قومی اتفاق رائے سے آگے بڑھانے پر اتفاق کا اظہار کیا۔
ذرائع کے مطابق قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں ڈی جی آئی ایس آئی نے بریفنگ دی اور آرمی چیف نے ارکان پارلیمنٹ کے سوالوں کا جواب دیا، اجلاس میں سیاسی قیادت کی جانب سے سوالات کم اور تقاریر زیادہ کی گئیں جس کی وجہ سے صرف افغان مسئلے پر گفتگو ہو سکی، کشمیر اور ملکی داخلی صورت حال کے حوالے سے بریفنگ نہیں دی جا سکی، جس کے باعث اس معاملے پر دوبارہ سیشن ہوگا
ذرائع کے مطابق عسکری حکام نے بریفنگ میں واضح کیا کہ افغان مسئلے پر ہم بالکل نیوٹرل رہنا چاہتے ہیں، افغانستان میں کسی ایک گروپ کی طرف نہیں جانا چاہتے، افغان عوام جس کو منتخب کریں، ہم وہاں گھسنا نہیں چاہتے، اب افغانستان میں خانہ جنگی ہوسکتی ہے، پارلیمان فیصلہ کرے ہم نے کیا کرنا ہے۔ عسکری حکام نے بتایا کہ چین اور امریکا کے معاملے پر کسی کیمپ میں نہیں، ماضی میں غلطیاں ہوئیں۔
بریفنگ میں عسکری قیادت نے کہا کہ افغان سرزمین ہمارے خلاف استعمال نہیں ہونی چاہیے، افغانستان میں کالعدم تحریک طالبان اور بلوچ دہشت گردتنظیموں کے 6 ہزارسے زائد لوگ موجود ہیں، داعش کے دو سے تین ہزار افراد شام سے افغانستان منتقل ہوگئے، داعش کے لوگ مختلف بارڈرز پر جا رہے ہیں۔ افغان تنازع کے باعث 5 سے7 لاکھ پناہ گزینوں کی پاکستان آمد متوقع ہے، افغان پناہ گزینوں کو سرحدی علاقوں تک محدود رکھا جائے گا۔
بریفنگ میں بتایا گیا کہ افغانستان میں نیٹو کے 7250 اور 1500 امریکی فوجی موجودہی، 600 ، 700 فوجی امریکی سفارتخانے کی حفاظت کیلئے موجود رہیں گے جب کہ بھارت اور طالبان کا ابھی تک براہ راست رابطہ نہیں ہوا۔ اس موقع پر چئیرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری نے آرمی چیف سے کہا کہ پی ٹی ایم کے ایم این اے علی وزیر کو معاف کر دیں۔
جس پر آرمی چیف نے کہا کہ مجھ پر تنقید تو نواز شریف اور ایاز صادق نے بھی کی تاہم ہم نے برداشت کیا لیکن پاکستانی فوج پر تنقید برداشت نہیں کریں گے لہٰذا علی وزیر کو بھی معافی مانگنا ہوگی، ۔ اس دوران محسن داوڑ نے اٹھ کر بولنے کی کوشش کی تو اسپیکر نے روک دیا جس پر جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا کہ آپ کھل کر بات کریں، محسن داوڑ آپ مجھ سے علیحدگی میں بھی ملے، کبھی آپ کا راستہ نہیں روکا، فوج پر الیکشن میں مداخلت کا کہتے ہیں، اگر ہم مداخلت کرتے تو آپ کیسے جیتتے، آپ نے جب کہا میں آپ سے ملا۔
Comments are closed.