نورمقدم قتل کیس۔۔۔ٹرائل مکمل ہونے پر فیصلہ محفوظ

 اسلام آباد:اسلام آباد کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ نے نور مقدم کیس کا ٹرائل مکمل ہونے کے بعد فیصلہ محفوظ کر لیا۔پراسیکیوٹر رانا حسن نے عدالت سے استدعا کی کہ ملزمان کو سخت سزا دیکر ایک مثال بنایاجائے ۔دوسری جانب سے مرکزی ملزم ظاہر جعفر کے والدین کے وکلا نے کہا کہ کیس میں کہیں بھی ملزم کے والدین کے ملوث ہونے کے ثبوت نہیں ملے اس لئے انہیں شک کا فائدہ ملنا چاہیے ۔

دوران سماعت پراسیکیوٹر رانا حسن نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ پوسٹ مارٹم اور فرانزک رپورٹ میں یہ ثابت ہوچکاکہ نورمقدم کو تشددکے بعدقتل کیا گیا۔ڈی وی آر میں سب صاف نظر آرہا ہے کہ کون پہلے اور کون بعد میں آیا جس کے بعد کسی قسم کا شک باقی نہیں رہتا۔نورمقدم نےجب چھلانگ ماری تو وہ ٹھیک طرح چل بھی نہیں پارہی تھی۔رانا حسن نے کہا کہ اس کیس کو ملک کا بچہ بچہ دیکھ رہا ہے کہ ملک کا نظام کیسے چل رہا ہے۔عدالت ملزمان کو کڑی سے کڑی سزا دیکر ایک مثال قائم کرے۔

مرکزی ملزم ذاکر جعفر کی والدہ کے وکیل نے جوابی دلائل میں کہا کہ ہمارے خلاف چارج فریم کیا گیا کہ ہم ملزمان کے ساتھ رابطے میں تھے۔ اس کو ثابت کیا جائے کہ والدین کو قتل سے متعلق علم تھا۔والد ذاکر جعفر کے وکیل نے موقف اختیارکیا کہ پروسیکیوشن کے مطابق کسی بھی گواہ نے یہ نہیں کہا کہ مرکزی ملزم کے والدین نے قتل کی اطلاع دی اور نہ ہی کسی گواہ نے قتل کا عینی شاہد ہونے کا دعویٰ کیا۔ عدالت ملزمان کو شک کا فائدہ دے ۔عدالت نے تمام فریقین کے دلائل مکمل ہونے کے بعد کیس کا فیصلہ محفوظ کر لیا جو 24 فروری کو سنایا جائے گا۔
اسلام آباد کی مقامی عدالت میں نور مقدم کیس کا ٹرائل چار ماہ تک جاری رہا۔ اس دوران مجموعی طور پر انیس گواہان کے بیانات قلمبند کیے گئے ۔ کیس میں شامل 11 ملزمان جیل میں ہیں جبکہ ملزم کی والدہ عصمت آدم جی ضمانت پر ہیں۔

Comments are closed.