پاکستان نرسنگ اینڈ مڈوائفری کونسل (PNMC) نے ملک بھر میں 38 جعلی نرسنگ کالجز کی فہرست اپنی ویب سائٹ پر جاری کر دی ہے۔ ان اداروں میں وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کے 5، پنجاب کے 25، سندھ کے 5 اور خیبرپختونخوا کے 2 کالجز شامل ہیں۔
طلبہ اور والدین کے لیے ایڈوائزی
کونسل نے واضح کیا ہے کہ کسی بھی غیر رجسٹرڈ اور جعلی ادارے کی ڈگری کو تسلیم نہیں کیا جائے گا۔ والدین اور طلبہ کو ہدایت کی گئی ہے کہ داخلے سے قبل کالج کی رجسٹریشن لازمی چیک کریں تاکہ مستقبل میں مشکلات سے بچا جا سکے۔
رجسٹریشن کے عمل میں تعطل
رپورٹ کے مطابق صدرِ پاکستان کی جانب سے نرسنگ کونسل کی تشکیلِ نو سے متعلق آرڈیننس جاری کیے جانے کے بعد کالجز کی رجسٹریشن اور انسپکشن کا عمل تعطل کا شکار ہے۔ اس کے باعث ملک میں نرسنگ کے شعبے میں غیر معیاری ادارے بڑھنے لگے ہیں۔
نرسز کی قلت اور موجودہ ادارے
کونسل کے مطابق اس وقت ملک میں 755 رجسٹرڈ نرسنگ ادارے موجود ہیں، تاہم ان میں سے بیشتر مطلوبہ معیار کے مطابق کوالیفائیڈ نرسز تیار کرنے میں ناکام ہیں۔ ملک بھر میں کوالیفائیڈ نرسز کی شدید قلت برقرار ہے جس سے صحت کے نظام پر دباؤ بڑھ رہا ہے۔
اسلام آباد کے جعلی ادارے
اسلام آباد میں شامل جعلی اداروں میں کیپٹل کالج آف نرسنگ اینڈ میڈیکل ہیلتھ، ایڈورڈ کالج آف نرسنگ، نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ماڈرن لینگوئجز اینڈ سائنسز، انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ سائنسز اور یونیک ٹیکنیکل اینڈ پروفیشنل کالج شامل ہیں۔
سندھ اور خیبرپختونخوا کے جعلی ادارے
کراچی کے جعلی کالجز میں امان انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ سائنسز اینڈ نرسنگ، میڈیا ایڈ اسکول آف نرسنگ اور پری انسٹی ٹیوٹ آف نرسنگ اینڈ ہیلتھ سائنسز شامل ہیں، جبکہ حیدرآباد اور خیرپور کے دو ادارے بھی فہرست کا حصہ ہیں۔ خیبرپختونخوا کے مردان کالج آف نرسنگ اور صوابی کا آربٹ کالج آف نرسنگ اینڈ الائیڈ سائنسز بھی جعلی قرار دیے گئے ہیں۔
پنجاب کے 25 جعلی ادارے
پنجاب میں سب سے زیادہ جعلی نرسنگ کالجز سامنے آئے ہیں۔ لاہور، راولپنڈی، فیصل آباد، اٹک، گجرانوالہ، جھنگ، سیالکوٹ، ساہیوال اور سرگودھا کے مختلف کالجز اس فہرست میں شامل ہیں۔ ان میں بوسٹن انٹرنیشنل کالج آف نرسنگ لاہور، قائداعظم انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز لاہور، بریلینٹ انسٹی ٹیوٹ آف سائنسز راولپنڈی اور کنگ عبداللہ کالج آف نرسنگ سرگودھا جیسے نام بھی شامل ہیں۔
حکام کی تشویش
ذرائع کے مطابق ان اداروں میں سے بیشتر نے نرسنگ کونسل کی ایڈوائزی کو نظر انداز کرتے ہوئے داخلے جاری رکھے ہوئے ہیں، جس پر کونسل نے شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ ماہرین صحت کا کہنا ہے کہ جعلی اداروں کے بڑھنے سے مریضوں کی جانوں کو براہِ راست خطرہ لاحق ہوتا ہے کیونکہ غیر تربیت یافتہ عملہ صحت کے شعبے میں سنگین مسائل پیدا کر سکتا ہے۔
Comments are closed.