پشاور کی دیرکالونی کی مسجد میں بارودی مواد کادھماکہ ہوا،دہشتگردوں نے معصوم بچوں سمیت دیگرا فراد کو اس وقت نشانہ بنایا جب وہ مدرسے میں درس قرآن سن رہے تھے ۔ اب تک شہید ہونے والے آٹھ افراد میں چھ بچے بھی شامل ہیں جبکہ 100 سے زائد ا فراد زخمی ہیں کئی کی حالت تشویشناک ہے ۔
خبر صرف اتنی ہی ہے اس سے آگے ایک المیہ ،ایک سانحہ ؟؟ معصوم بچوں کے لاشے دیکھ کر کلیجہ منہ کو آتا ہے ؟ کہتے ہیں پٹھان اور بکری کا بچہ ہوتا ہی خوبصورت ہے، جس نے بھی ابدی نیند سو جانے والے ان بچوں کی تصاویر دیکھی ہیں، ان کے لیے اس سے انکا ر ممکن نہیں،میرا دکھ لیکن دوسرا ہے،بچوں کے مرنے میں بھی تقسیم کیوں ؟؟
اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر کہیں، اگر یہی بچے ملک کے کسی فوجی یا بڑے نجی اسکول کے ہوتے تو کیا پھر ہمارے ٹی وی چینلز کی اسکرینز ایسے ہی چلتی؟ ہماری وفاقی اور صوبائی حکومتیں، سیاستدان ایسے ہی روزمرہ کی سیاست بازی میں مصروف ہوتے ، ہمارےسیکیورٹی اداروں کا مزاج بھی ایسے ہی ٹھنڈا ہوتا؟ہمارا سوشل میڈیا بھی یونہی چین کی بانسری بجا رہا ہوتا، کوئی ڈسپلے پکچر تبدیل ہوئی نہ بیک گراونڈ، کسی نے کوئی نوحہ لکھا نہ دہشتگردوں پر لعن طعن کی ۔ اور تو اور صبح سے رات ہوگئی ہاتھوں میں موم بتیاں اٹھائے فوراً چوکوں چوراہوں پر پہنچ جانے والی لبرل آنٹیاں بھی آج غائب ہیں؟سر شام ٹی اسکرینوں پر دھما چوکڑی مچانے والے اینکرز صاحبان نے بھی ان بچوں کے خون کو معمول کی کارروائی سمجھ لیا؟
میرا دکھ یہ ہے کہ دہشتگردوں کے ہاتھوں ایک بچہ مرے یا ایک سو۔۔انگریزی اسکول میں پڑھنے والا مرے یا سر پر ا مامہ باندھے کسی مدرسے کا ننھاقاری۔اس کے ماتم میں تفریق ہونی چاہیے کیا؟اس کی مذمت میں بھی الفاظ کی شدت اور لب و لہجہ مختلف ہونا چاہیے کیا ؟ افسوس ،یہ رویہ آج کا نہیں، پرانا ہے ،باجوڑ کے ایک مدرسے پر امریکی ڈرون حملے میں شہید معصوم بچوں کے لاشے بھی ہم نے دیکھے تھے ، اس وقت بھی پورا ملک اجتماعی سوگ میں نہیں ڈوبا؟اگر مگر کی بولیاں سنائی دیں ۔۔اور پھر بات سانحہ آرمی پبلک اسکول تک آن پہنچی ،معصوم بچوں کی شہادت پر پوری قوم تڑپ اٹھی ، ہم سب نے مل کر آہ وبکاہ کی ، اک حشر ہم نے برپا کیا، کوئی مذہبی طبقہ پیچھے رہا نہ لبرل، ہونا بھی یہی چاہیے تھا، ریاست پاکستان نے بھی دہشتگردوں کو خوب جواب دیا، 100 سے زائد بچوں کی قربانی نے ہزاروں کو بچا لیا۔۔ مگر
مگر۔۔۔آج اسی شہر پشاور میں،اسی آرمی پبلک اسکول سےچند ہی کلومیٹر کے فاصلے پر ، ایک اور درسگا ہ میں قتل عام ہوا۔ سفاکیت اس بار بھی کم نہ تھی ، خون اس بار بھی بچوں کا ہی بہا، بارود کی بُو اس با ربھی پھولوں کے شہر میں ہی پھیلی۔ پھر ہر آنکھ نم ، ہر دل غمگین ، ایسی کوئی کیفیت ہم نے کیوں نہیں دیکھی ؟کسی ٹی وی چینل نے دل پر ضرب لگانے والی کوئی شہ سرخی کیوں نہیں جمائی؟ کسی معصوم فرشتے کی بین کرتی کوئی ماں ہمیں کیوں اسکرینوں پر نظر نہیں آئی؟یہ دوہرا معیار ہی ہمارا اصل ہے، یہی ہمارا ظاہر یہی باطن ، اس کے ساتھ جی کر بھی ہم اپنا شمار زندوں میں کریں کیا۔۔؟؟
Comments are closed.