دنیا کشمیر میں بھارتی مظالم کا نوٹس لے، ہندو انتہاء پسندوں کو سزا کیلئے اقدامات کرے، وزیراعظم

وزیراعظم عمران خان نے ایک بار پھر کشمیر کا مقدمہ دنیا کے سب سے بڑے فورم پر بھرپور انداز میں پیش کیا اور کہا کہ عالمی برادری کشمیر میں بھارتی ظلم و ستم کا فوری نوٹس لے اور ہندو انتہا پسندوں کو سزا دینے کے لیے اقدامات کرے۔

وزیراعظم عمران خان نے اقوام متحدہ کی 75 ویں جنرل اسمبلی سے ویڈیو لنک کے ذریعے خطاب کیا، کورونا وبا کے باعث اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا سالانہ اجلاس اس بار ورچوئل طریقے سے منعقد ہوا، اجلاس میں رہنماؤں کا پہلے سے ریکارڈ شدہ خطاب نشر کیا گیا۔

وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ اگر بھارت کی فسطائی حکومت نے پاکستان کے خلاف کوئی جارحیت کی تو پاکستانی قوم اس کا بھر پور جواب دے گی، ہم نے عالمی برادری کو بھارت کی طرف سے جھوٹے آپریشن سمیت دیگر اشتعال انگیزی کارروائیوں سے آگاہ رکھا ہے، پاکستان کنٹرول لائن اور ورکنگ باونڈری پر بھارتی اشتعال انگیزی اور خلاف ورزیوں کے باوجود ضبط کا مظاہرہ کررہا ہے۔

عمران خان نے اقوام عالم کے سامنے ایک بار پھر کشمیر کا مقدمہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ کشمیریوں نے بھارتی قبضے سے آزادی کے لیے نسل درنسل اپنی جانوں کی قربانیاں دی ہیں، مقبوضہ علاقے کا آبادی کا تناسب تبدیل کرنا جنگی جرم ہے، اس ظالمانہ مہم کا مقصد دہشت گرد آرایس ایس ، بی جے پی کے جموں و کشمیر کے خود ساختہ حتمی حل کو عملی جامہ پہنانا ہے۔

اپنی بات جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بین الاقوامی برادری لازمی طور پر ان سنگین خلاف ورزیوں کی تحقیقات کرے، اقوام متحدہ کے انسانی کمشنر، انسانی حقوق کونسل کے خصوصی نمائندوں کی رپورٹ ان مظالم کی گواہ ہیں، بھارت کا مقبوضہ کشمیر پر غیر قانونی قبضہ ہے، آر ایس ایس کے غنڈے مسلمانوں کو حملوں کا نشانہ بنا رہے ہیں۔

وزیراعظم کا مزید کہنا تھا کہ 2002ء میں بھارتی شہر گجرات میں مسلمانوں کا قتل عام کیا گیا، 2007ء میں سمجھوتہ ایکسپریس میں مسلمانوں کو زندہ جلایا گیا، جس طرح نازی جرمن یہودیوں کے خلاف تھے بالکل اسی طرح آر ایس ایس مسلمانوں کے خلاف ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ تمام کارروائیاں اس وقت کے وزیراعلیٰ نریندرا مودی کی نگرانی میں ہوئیں، آر ایس ایس نے 1992ء میں بابری مسجد شہید کی، آسام میں 20 لاکھ مسلمانوں کو امتیازی قوانین کے ذریعے شہریت جیسے مسائل سے دوچار کیا، پیرس 2015ء کے معاہدے پر مکمل عمل ہونا چاہیے۔

وزیراعظم نے کہا کہ مختلف ممالک میں مسلمانوں کو نفرت اور ظلم کا سامنا ہے، مزارات کو نقصان پہنچایا گیا، آزادی اظہار رائے کے نام پر  ہمارے نبی کریمﷺ کی توہین کرنے کی کوشش کی گئی، قران پاک کی بے حرمتی کی گئی، فرانسیسی اخبار چارلی ہیبڈو میں ایک بار پھر شایع ہونے والے اسلام مخالف خاکے اس کی مثال ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ترقی پذیر ممالک کا قرضہ معاف کیا جانا چاہیے، لوٹی ہوئی رقم کو واپس غریب ممالک کو لوٹانے کے لیے فوری اقدامات ہونے چاہئیں، اگر اسے قابو نہ کیا گیا تو دنیا میں غریب اور امیر کے درمیان فرق بڑھے گا، غریب ممالک سے پیسہ کرپشن کے ذریعے امیر ممالک پہنچ جاتا ہے، میں نے اپنی گزشتہ تقریر میں ترقی پزیر ممالک کے معاشی مسائل کا ذکر کیا تھا۔

عمران خان مزید کہا کہ جنرل اسمبلی کو غیر قانونی مالیاتی منتقلی اور لوٹی گئی رقم کی واپسی کے لیے موثر قانونی فریم ورک تشکیل دینا چاہیے، امیر ملک منی لانڈرنگ کرنے والوں کو تحفظ دے کر انسانی حقوق و انصاف کی بات نہیں کرسکتے، امیر ممالک میں اس مجرمانہ سرگرمی کو روکنے کے لیے سیاسی عزم کی کمی ہے۔

کورونا وائرس سے متعلق عمران خان نے کہا کہ پاکستان اب بھی کورونا کے خطرے سے باہر نہیں ہے، پاکستان کے کورونا کے خلاف اقدامات کو دنیا میں ایک کامیابی کے طور پر جانا جاتا ہے، ہم نے نہ صرف وبا پر قابو پایا بلکہ معیشت کو بھی مستحکم کیا اور احساس پروگرام کے ذریعے غریب ترین لوگوں کو مالی امداد دی۔

وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ ترقی پذیر ملکوں کو کورونا وائرس کے بحران سے نمٹنے کے لیے مالی وسائل درکار تھے، عالمی اصولوں کے تحت مسائل سے لڑنے کے لیے اکٹھا ہونا پڑے گا، کورونا وبا کے دوران پاکستان نے سخت لاک ڈاوَن نہیں کیا، ہم نے فوری طور پر زراعت اور تعمیرات کی صنعت کو کھولا کیوں کہ ہمیں احساس تھا کہ اگر سخت لاک ڈاوَن کیا تو لوگ بھوک سے مر جائیں گے۔

افغانستان کے معاملے پر وزیراعظم پاکستان کا کہنا تھا کہ افغان مسئلے کا واحد حل سیاسی حل ہے، پاکستان نے اپنے حصے کی ذمہ داری نبھائی، افغان پناہ گزینوں کی واپسی بھی افغان سیاسی حل کا حصہ ہونا چاہیے، افغانستان میں امن سے علاقائی ترقی کی نئی راہیں کھلیں گی۔

Comments are closed.