کپتان پچ ریڈ نہیں کر سکے

تحریر: عمران اعظم

اسلام آباد: عمران خان حکومت میں آئے نہیں لائے گئے تھے،بالکل اسی طرح جس طرح اس سے پہلے والے لائے جاتے رہے ہیں، اس میں تو اب کوئی ابہام باقی نہیں رہا۔ عمران خان نے اپنے دوراقتدارمیں کیا اچھا کیا،کیا بُرا اس پر ان کے حمایتی اورا ن سے ا ختلاف رائے رکھنے والے لکھاری بہت کچھ لکھ چکے لیکن ان کے نکالے جانے کے بعد ملک جس سیاسی افراتفری اور تقسیم کا شکار ہے ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا، عسکری اداے کی ناموس کو عمران خان اور ان کے سوشل میڈیا وارئیرز ناقابل تلافی نقصان پہنچا رہے ہیں جس کی اسٹیبلشمنٹ کو ہر گز توقع نہ تھی ۔ سب سے خطرناک بات یہ ہے عمران خان صرف جنرل قمر جاوید باجوہ کو نہیں آنے وا لے آرمی چیف کو بھی متنازع بنا نے کی مہم پر چل نکلے ہیں، ان کا ایک ہی موقف ہے کہ پی ڈی ایم اور ان کے ا تحادیوں کو لایا ہی مرضی کے آرمی چیف کی تقرری کے لیے گیاہے کیونکہ اسٹیبلشمنٹ اور اپوزیشن دونوں کا خیال تھا کہ وہ موجودہ کورکمانڈر پشاور لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کو آرمی چیف بنا دیں گے اور پھر آئندہ پانچ سال بھی تحریک انصاف اقتدار میں اور اپوزیشن جیلوں میں رہے گی ۔ باخبر ذرائع کے مطابق عمران خان کی یہ بات غلط نہیں،وہ جو کہہ رہے ہیں اس کا ایک ٹھوس بیک گراونڈ موجود ہے۔

 سابق وزیر اعظم عمران خان اور عسکری قیادت کے درمیان اس وقت کے آئی ایس آئی چیف فیض حمید کی ٹرانسفر کولیکر پیدا ہونے والے تنازع سے پہلے میری جب بھی اسٹیبلشمنٹ کی قریب سمجھے جانے والے باخبر صحافیوں سے بات چیت ہوئی ، ان کا یہی کہنا تھا کہ اپوزیشن 10 سال صبر کرے ، آئندہ پانچ سال بھی عمران خان کے ہیں، یہ سن کر ہی میرا سر چکرا جاتا تھا کہ عمران خان کی اس کار کردگی کیساتھ ایسا کیسے ممکن ہے ؟ لیکن پھر وقت کیساتھ ساری گتھیاں سلجھتی چلی گئیں۔ کوئی شک نہیں کہ شہباز شریف اور نون لیگی قیادت کے خلاف درجنوں بوگس اور جھوٹے کیسز بنائے گئے لیکن شہباز شریف اور حمزہ شہباز کے خلاف منی لانڈنگ ایک اوپن اینڈ شٹ کیس تھا اور اس میں ان کابچنا نہ ممکن تھا۔ اگر یہ وجہ نہ ہوتی تو آصف زرداری کیا کوئی باندھ کر بھی نون لیگ کو اقتدار دیتا تو وہ اس معاشی بحران کے پہاڑ کے نیچے سر نہ دیتے ۔

 اب سوال یہ ہے کہ پھر اسٹیبلشمنٹ کو کیا ضرورت تھی کہ وہ شہباز شریف کو بچانے کے لیے اس حد تک چلی جائے ؟اسی شریف خاندان کو تو انہوں نے کرپٹ ثابت کیا ، ایون فیلڈ ریفرنس میں نواز شریف اور مریم نواز کو سزا دی جا چکی ہے ، اب شہباز شریف اور حمزہ شہباز بھی جیل جاتے تو اس بیانیے پر مہر ثبت ہوجاتی کہ واقعی پواراشریف خاندان چور ہے اور یہ دہائیوں سے ملک لوٹ کر پیسہ منی لانڈرنگ کے ذریعے بیرون ملک بھیج رہے ہیں، پوری قوم اسٹیبلشمنٹ کو نجات دہندہ سمجھتی کہ کرپٹ حکمرانوں سے ان کی جان چھوٹی لیکن فوجی اصطلاح میں یکدم ، اباوٹ ٹرن ،، کیوں لیا گیا؟

یہی سوال ایک اہم سابق اعلیٰ عسکری شخصیت کیساتھ ہونے والے طویل نشست میں ان کے سامنے رکھا؟ تھوڑی دیر خاموشی کے بعد ایک گہری سانس لی اور بولے : ینگ مین، کرکٹ سے د لچسپی ہے، جواب دیا بہت ؟ بولے آپ کو پتا ہے کہ بڑے کرکٹ میچ سے پہلے پچ کو ریڈ کرنا کتنی ضروری ہے ؟ اگر پچ کو ریڈ کرنے میں آپ سے غلطی ہو جائے تو آپ ٹاس جیتنے کے بعد بھی میچ ہار جاتے ہیں ، آپ گیلی پچ پر پہلے بیٹنگ کرنے اتر جاتے ہیں اور پھر ایک کے بعد ایک غلط شارٹ کھیل کو جو میچ آپ ایک درست فیصلے سے جیت سکتے تھے ،دوسرے کی جھولی میں ڈال دیتے ہیں۔ خان صاحب کیساتھ بھی یہی ہوا، کپتان سیاست کی پچ صیح طرح سے ریڈ نہیں کرسکا اور اب اسے شکست سے کوئی خدائی مدد ہی بچا سکتی ہے ۔ تھوڑے سے تحمل کیساتھ بولے ، عمران خان پہ در پہ غلطیوں کے بعد سنبھل چکے تھے لیکن ایک غلطی جو پہلے دن وہ کرتے آئے کہ انہوں نے اپوزیشن کیساتھ رسمی تعلقات بھی نہ رکھے ، سیاست میں ایسا ممکن نہیں کہ آپ کسی بھی اپوزیشن کوکمزور سمجھیں، یہاں بازی پلٹتے دیر نہیں لگتی ۔ عمران خان کی اسی کمزوری نے پیپلز پارٹی کو بھی نون لیگ کے قریب کر دیا ورنہ عمران خان کو یوں اقتدار سے بے دخل کرنا آسان نہ تھا۔ بولے جہاں تک اسٹیبلشمنٹ اور نون لیگ کی قربت کی بات ہے وہ بھی عمران خان کی نااہلی ہے، نون لیگ اور اسٹیبلشمنٹ کو اکٹھا بھی عمران خان کی حماقت نے کیا، نہ عمران خان وقت سے پہلے جنرل فیض حمید کی محبت میں اس قدر گرفتار ہوتے اورنہ ہی انہیں فوج کے اندر متنازع بناتے، عمران خان کی ضد کا پہلا نقصان جنرل فیض حمید جیسے پروفیشنل سولجر کو ہوا اور پھر عمران خان کو بھی اس کا خمیازہ بھگتا پڑا،اسٹیلشمنٹ اور نون لیگ کے درمیان اتفاق ہی اس وقت ہوا جب مفادات مشترک ہوئے ، نتیجہ یہ نکلا کہ شہباز شریف جیل جانے کے بجائے وزیر اعظم ہاوس اور بیٹا وزیر اعلیٰ ہاوس پہنچ گیا ۔

اپنی بات آگے بڑھاتے ہوئے کہاکہ میری بات یاد رکھنا، عمران خان کا سارا بیانیہ اس وقت دھڑم سے گر جائے گا جب ایک غیر متنازعہ فوجی افسر آپ کا نیا آرمی چیف بنے گا۔ سوال کیا، عمران خان اور ان کے سوشل میڈیا وارئرز اس حکومت کے آنے کی بنیادی وجہ ہی نئے آرمی چیف کی تعیناتی قرار دے رہے ہیں تو پھر نیا آرمی چیف غیر متنازعہ کیسے ہوسکتا ہے ، بولے،اگرعمران خان مزید ایسا کام جاری رکھیں گے تو یہ ادارے اور پاکستان دونوں کے کیساتھ زیادتی کریں گے ۔ ادارہ ایک حد سے زیادہ بات نہیں کر سکتا، ورنہ عمران خان کوکس نے اور کیسے لایا تھا،یہ راز کھلے تو عمران خان کی سیاست بھی باقی نہیں رہے گی۔ میرا مشورہ سیاستدانوں کو صرف اتنا ہےکہ اپنے کپڑے دوسرے کے لانڈری میں دھونا بند کر دیں ورنہ عوام کی نظروں میں ان کی قیمت دو کوڑی بھی نہیں ر ہے گی۔ سیاستدان جب تک احتساب کے سول اداروں کو اپنے ہاتھوں سے کمزور کرتے رہیں گے، اسٹیبلشمنٹ کو موقع ملتا رہے گا کہ وہ سیاستدانوں کے اوپر کرپشن کی تلوار لٹکاتی رہے گی ، ادارے مضبوط ہوں اور پورے ملک کو ان کی غیر جانبداری پر شک نہ ہو تو کسی بے گناہ کو سزا مل بھی جائے ، سیاستدان فائدے میں رہیں گے لیکن اتحادی حکومت نے اقتدار میں آنے کے بعد جو کچھ نیب کے ادارےکیساتھ کیا، اس کے بعد بھی آپ کولگتا ہے کہ سیاستدان خود کو احتساب سے بالاتر نہیں سمجھتے ۔

 میں نے دیکھا کہ ہمارے میزبان جو کچھ وقت پہلے تک مجھے سیاستدانوں کی ہمدرد لگے ان کا چہرہ سرخ ہو چکاتھا،کہا ، نیب ہو یا کوئی بھی تحقیقاتی ادارہ اس کاکام صرف اتنا ہوتاہے کہ وہ یہ ثابت کرے کہ یہ جائیداد آپ کے یا آپ کے کسی قریبی رشتے دار کے نام پر ہے، اس کے بعد اس جائیدار کے ذرائع آمدن ثابت کرنا تو ملزم کا کام ہے کہ یہ جائیداد اس نے اپنی جائز آمدن سے بنائی ،لیکن نیب قوانین میں ترامیم کرکے ملزم کو اس سے بھی آزاد کر دیاگیا۔ آپ وعدہ معاف گواہ کو بھی 5 سال کے لیے سرکاری عہدے کے لیے نااہل قرار دے دیا تاکہ مستقبل میں کوئی شخص کسی طاقتور کے خلاف وعدہ معاف گواہ بننے کی جرات ہی نہ کر سکے ۔آپ نیب کو چھ ماہ میں انکوائری اور تفتیش مکمل کرنے کا پابند بنا دیا جب کہ ترقی یافتہ ممالک میں بھی ایسے مقدمات کی تحقیقات کے لیے دو سال کی مدت رکھی گئی ہے ۔ آپ انکوائری اور تفتیش رکوانے کے لیے بھی قانون بنا دیں کہ عدالت میں جس افسر کا کیس ثابت نہیں ہو گا اسے پانچ سال قید ہو جائے گی۔آپ انکوائری یا انوسٹی گیشن کی تفصیل عام کرنے والے نیب افسر کو ایک سال قید، دس لاکھ جرمانے کی سزا سنا دیں،آپ نیب کو وزارت داخلہ کے ماتحت کردیں، اور اثاثے کی تعریف ہی بدل دیں کہ آج سے اثاثہ صرف اسے سمجھا جائے جو ملزم کے نام پر ہو گا ،یعنی اب آپ صدر آصف علی زرداری اور میاں نواز شریف سمیت کسی سیاستدان کے بیوی ،بچوں ،رشتے داروں یا ملازمین کے نام پر بنائے گئے اثاثوں کو ان کے نہ سمجھیں توآپ کے بارے میں عوام کی رائے کیا ہو گی اور عوام کب تک عمران خان کو غلط سمجھے گی ۔

Comments are closed.