حکومت نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیس فیصلے کے چودہ نکات کو اپنی فتح قرار دیا ہے، حکومتی ٹیم کے مطابق اس فیصلے میں حکومت کو کئی کامیابیاں ملی ہیں، ریفرنس میں بنیادی الزام یہ تھا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی بیوی اور بچوں کی برطانیہ میں جائیدادیں ہیں جسے سچ تسلیم کیا گیا۔
عدالتی فیصلے میں حکومتی ٹیم پر حقائق سے متعلق کوئی بدنیتی ثابت نہیں ہوسکی، فیصلے میں اقلیتی رائے اگرچہ حکومت کے حق میں نظرنہیں آئی مگر یہ رائے اکثریتی عدالتی فیصلے کی عکاسی نہیں کرتی، حکومت کو اطمینان ہے کہ اکثریتی فیصلے میں فریقین کیخلاف کسی ایکشن کا نہیں کہا گیا جس سے متعلق تفصیلی فیصلہ آنے سے قبل خدشات کا اظہار کیا جارہا تھا۔
اس فیصلے میں سابق چیف جسٹس افتخارچوہدری کیس اور جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیس میں فرق واضح کر دیا گیاہے، جسٹس افتخارمحمد چوہدری کیس میں اُس وقت کے فوجی حکمران کی بدنیتی ثابت کی گئی تھی جبکہ اس فیصلے میں حکومتی بدنیتی ثابت نہیں ہو سکی۔
حکومت اس بات پر بھی خوش ہے کہ لندن جائیدادوں کے ذرائع آمدن اور فنڈز بیرون ملک ٹرانسفر کرنے کے طریقہ کار کی وضاحت کرنی ہوگی، فیصلے میں اصول طے ہو چکاہے کہ جج صاحب کی اہلیہ کی جانب سے نامعلوم اور غیر ظاہر شدہ سرمایہ کاری جج اور عدلیہ کی ساکھ کو متاثر کرتی ہے۔
حکومت کےاس بیانیے کو تقویت ملی ہے کہ پبلک آفس ہولڈر جس میں اعلیٰ عدلیہ کے ججز، مسلح افواج کے افسران اور منتخب نمائندے اگر بیرون ممالک میں غیر ظاہر شدہ اثاثے رکھیں تو پاکستان میں اب یہ داغ سمجھا جاتا ہے اور یہ ظاہر کرتا ہے کہ یہ غیر قانونی طور پر بنائے گئے ہیں، پنامہ لیکس کے بعد اب یہ داغ زیادہ بڑا نظر آنے لگا ہے۔
ایک اصول واضح ہو گیا ہے کہہ اعلیٰ عدالتوں کے جج صاحبان، مسلح افواج کے افسران اور منتخب نمائندے قابل احتساب ہیں اور قانون کے تحت جوابدہ ہیں۔ عدلیہ سمیت اب کوئی ادارہ یہ تاثر برداشت نہیں کر سکتاہے کہ پبلک آفس ہولڈرز قابل احتساب نہیں اور نا معلوم اور غیر ظاہر شدہ جائیداد بیرون ملک میں رکھی جاسکے۔
حکومت بڑی مطمئن ہے کہ19 جون کے فیصلے اور تفصیلی فیصلے میں کچھ بھی مختلف نہیں ہے۔ حکومت پر الزام تھا کہ ریفرنس فیض آباد دھرنا کیس کے فیصلے کی وجہ سے دائر کیا گیا جسے جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے تحریر کیا تھا مگر فیصلے کے مطابق حکومتی ریفرنس کا فیض آباد دھرنا کیس سے کوئی تعلق نہیں۔
سب سے اہم بات ایسٹ ریکوری یونٹ کے قیام اور بیرسٹر شہزاد اکبر کو اس کا چیئرمین بنانے سے متعلق بھی واضح ہو گیا ہے کہ دونوں کی حیثیت غیر قانونی نہیں ہے، حکومت پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور انکے اہل خانہ کی جاسوسی کا الزام تھا مگر فیصلے سے واضح ہوتا ہے کہ حکومت نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور انکے اہل خانہ کی جاسوسی یا نگرانی نہیں کی۔
سپریم کورٹ کے جج کے احتساب کا واحد فورم سپریم جوڈیشل فورم ہے مگر مسز قاضی فائز عیسیٰ چونکہ جج نہیں اس لئے ان کا معاملہ کارروائی کیلئے ایف بی آر کو بھجوایا گیا۔ حکومت سمجھتی ہے کہ چونکہ یہ اپنی نوعیت کا پہلا معاملہ تھا سپریم کورٹ نے سپریم جوڈیشل کونسل کے سامنے معلومات رکھنے کے طریقہ کار میں خامیوں کی نشاندہی کی۔
سپریم کورٹ نے کئی شقوں کی تشریح کرکے طریقہ کار وضع کیا کہ کسی جج یا اسکے اہل خانہ کی بیرون ملک جائیداد کامعاملہ ہو تو معلومات کیسے پیش کی جاسکتی ہیں۔ سپریم کورٹ نے حکومت کی یہ بات مانی کہ اگر فنڈز کے ذرائع اور انہیں باہر منتقل کرنے کا طریقہ کار ٹھیک نہیں تو جج صاحب کو جوابدہ ہونا چاہیے۔
عدالت عظمیٰ کے فیصلے نے حکومتی ٹیم کے موقف کو تقویت دی ہے کہ جج کی اہلیہ اور بچوں کے نام نامعلوم اور غیرظاہر شدہ جائیداد بیرون ملک میں ہو تو اسکے خلاف مس کنڈکٹ پر کارروائی کی جاسکتی ہے۔ حکومت سمجھتی ہے کہ اس کا ریفرنس اور اسکے بعد سپریم جوڈیشل کونسل کی جانب سے جاری ہونے والا شو کاز نوٹس اس بنیاد پر تھا کہ جج صاحب فنڈز کے ذرائع اور منتقلی کے طریقہ کار بتانے کے پابند ہیں، تفصیلی فیصلے میں اس بیانیے کو تسلیم کیا گیا۔
حکومتی اقدامات میں طریقہ کار کی غلطی کے باعث اسے ختم کیا گیا مگر کسی حکومتی شخصیت کے خلاف نہ تو کارروائی کا کہا گیا نا ہی کوئی حکومتی بدنیتی ثابت ہوئی اب اگر کسی نے وضاحت دینی ہے تو وہ دوسرا فریق ہے۔
Comments are closed.