جنسی جرائم کے خاتمے کے لیے قانون سازی اہم مرحلے میں داخل ہو گئی ہے۔خواتین اور بچوں سے زیادتی کے مقدمات کی سماعت کے لیے خصوصی عدالتیں قائم کی جائیں گی ۔مجرم کو نامرد ہونا ہے یا 25 سال قید کاٹنی ہے ،سزا کی نوعیت کا اختیا ر ملزم کو دینے کی تجویز بھی دی گئی ہے۔
کابینہ کمیٹی برائے قانون سازی نے انسداد ریپ مقدمات و تحقیقات آرڈیننس اور تعزیرات پاکستان ترمیمی آرڈیننس کی منظوری دے دی ۔ نئے قانون کے تحت خصوصی پراسیکیوٹرز ،انفارمیشن سیلز اور جے آئی ٹیز قائم کی جائیں گی جبکہ سماعت بھی ان کیمرہ ہوگی۔ڈی پی او کی سربراہی میں ٹیم تحقیقات کرے گی ، ایف آئی آر کے فوری اندراج کے لیے کمشنر اور ڈپٹی کمشنر کی سربراہی میں خصوصی انسداد ریپ سیل قائم کیا جائے گا ۔
نئے قانون کے مطابق طبی معائنے کا موجودہ غیر انسانی طریقہ کار ختم کر دیاجائے گا ،متاثرین سے ملزم کا وکیل جراح نہیں کرسکے گا، گواہوں کا تحفظ یقینی بنانے کیساتھ تحقیقات میں جدید آلات کا استعمال کیاجائے گا۔متاثرین کو قانونی معاونت بھی دی جائے گی ۔ اس کے ساتھ نادرا جنسی جرائم میں ملوث افراد کا ڈیٹا مرتب کرے گا ۔
کابینہ کمیٹی برائے قانون سازی کے مطابق قوانین کے مکمل نفاذ کے لیے خصوصی کمیٹی تشکیل دی جائے جو قانون کے تحت رولز تیار کرے ۔ تعزیرات پاکستان ترمیمی آرڈیننس کے تحت ریپ کی تعریف میں تبدیلی کی جائے گی اور مجرموں کو کیمیائی طریقہ کار سے جنسی طور پر ناکارہ بنانے کا طریقہ کار وضح کیا جائے گا ۔ مسودہ حتمی منظوری کے لیے کابینہ کو بجھوایا جائے گا۔
Comments are closed.