اسلام آباد:سپریم کورٹ میں شوکت صدیقی کی برطرفی کیخلاف کیس کی سماعت ہوئی ۔ عدالت عظمی ٰ نے لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ فیض حمید سمیت دیگر کو کیس میں فریق بنانے کیلئے ایک روز کی مہلت دے دی ۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ ادارے نہیں لوگ بُرے ہوتے ہیں،ملک کی تباہی اس وجہ سے ہوتی کہ شخصیات کے بجائے اداروں کو برا بھلا کہتے ہیں۔۔
سپریم کورٹ میں شوکت صدیقی کی برطرفی کیخلاف کیس کی سماعت ہوئی ۔دوران سماعت چیف جسٹس قاضی فائز عیسی ٰ نے کہاکہ بینچزکی تشکیل جمہوری انداز میں ہو رہی ہے، ملک جمہوریت کی طرف گامزن ہے تو سپریم کورٹ میں بھی جمہوریت آرہی ہے۔ادارے نہیں لوگ بُرے ہوتے ہیں،ملک کی تباہی اس وجہ سے ہوتی کہ شخصیات کے بجائے اداروں کو برا بھلا کہتے ہیں۔چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا شوکت عزیز صدیقی کی تقریر تحریری تھی؟ وکیل حامد خان نے جواب دیا کہ شوکت عزیز صدیقی نے فی البدی تقریر کی تھی۔
چیف جسٹس نے کہاکہ شوکت عزیز صدیقی کو مرضی کا فیصلہ کرنے کا کس نے کہا تھا؟ اس پر حامد خان نے کہا کہ لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید ایک بریگیڈیئر کے ساتھ شوکت عزیز صدیقی کے گھر گئے تھے۔چیف جسٹس نے کہا کہ جس شخص پر الزام لگا رہے ہیں انہیں فریق کیوں نہیں بنایا گیا؟ حامد خان نے کہا کہ شخصیات ادارے کی نمائندگی کر رہی تھیں اس لیے فریق نہیں بنایا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ کسی پر الزام نہ لگائیں یا پھر جن پر الزام لگا رہے انہیں فریق بنائیں۔حامد خان نے بتایاکہ ایک ریفرنس 2017 کے دھرنے کی بنیاد پر بنایا گیا، جس میں شوکت عزیز صدیقی نے بطور جج اسلام آباد ہائیکورٹ ریمارکس دئیے ۔ راولپنڈی بار میں کی گئی تقریر پر جوڈیشل کونسل نے خود نوٹس لیا۔۔ سپریم کورٹ نے کیس کی مزید سماعت جمعے تک ملتوی کر دی۔۔۔
Comments are closed.