سپریم کورٹ نے سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں سے متعلق پشاور ہائیکورٹ اور الیکشن کمیشن کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا۔ تیرہ رکنی فل کورٹ نے اپنے اکثریتی فیصلے میں کہاہے کہ انتخابی نشان کا نہ ملنا کسی سیاسی جماعت کو انتخابات سے نہیں روکتا، پاکستان تحریکِ انصاف ایک سیاسی جماعت تھی اور ہے۔ قومی اسمبلی ، پنجاب ، سندھ اور خیبر پختونخواہ میں خواتین اور اقلیتوں کی مخصوص نشستیں پی ٹی آئی کو دی جائیں
سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں سے متعلق درخواست پر محفوظ فیصلہ چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 13 رکنی فل کورٹ بینچ کے ممبر جسٹس منصور علی شاہ نے پڑھ کرسنایا جو براہ راست دیکھایاگیا۔ جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس اطہر من اللہ ، جسٹس شاہد وحید، جسٹس منیب اختر، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس عائشہ ملک، جسٹس حسن اظہر رضوی اورجسٹس عرفان سعادت نے درخواستوں کے حق میں فیصلہ دیا جبکہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ، جسٹس جمال مندوخیل،جسٹس نعیم اختر افغان اور جسٹس امین الدین خان نے اختلاف کیا۔
جسٹس منصور علی شاہ نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ پشاور ہائی کورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دیا گیا ہے، الیکشن کمیشن کا فیصلہ آئین کے خلاف ہے،انتخابی نشان کا نہ ملنا کسی سیاسی جماعت کو انتخابات سے نہیں روکتا، پاکستان تحریکِ انصاف ایک سیاسی جماعت تھی اور ہے۔ سپریم کورٹ نے حکم دیاکہ قومی اسمبلی ، پنجاب ، سندھ اور خیبر پختونخواہ میں خواتین اور اقلیتوں کی مخصوص نشستیں پی ٹی آئی کو دی جائیں۔عدالتِ عظمیٰ نے فیصلے میں کہا ہے کہ پی ٹی آئی بطور سیاسی جماعت قانون اور آئین پر پورا اترتی ہے، انتخابی نشان ختم ہونے سے کسی جماعت کا الیکشن میں حصہ لینے کاحق ختم نہیں ہوتا۔ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے منتخب ارکان پی ٹی آئی کا حلف نامہ دیں، جن امیدواروں نے سرٹیفکیٹ دیا کہ وہ پی ٹِی آئی سے ہیں وہ ایسا ہی رہے گا، پی ٹی آئی کے منتخب امیدواروں کو کسی اور جماعت کا یا آزاد امیدوار قرار نہیں دیا جا سکتا۔
جسٹس یحییٰ آفریدی نے اپنے اختلافی نوٹ میں کہا کہ وہ امیدوار جنہوں نے سرٹیفکیٹ دیے ہیں کہ وہ پی ٹی آئی سے ہیں انہیں پی ٹی آئی کے امیدوار قرار دیا جائے۔ پی ٹی آئی کو اسی تناسب سے مخصوص نشستیں دی جائیں۔ وہ امیدوار جنہوں نے دوسری پارٹیاں جوائن کیں انہوں نے عوام کی خواہش کی خلاف ورزی کی۔جسٹس امین الدین خان نے اپنے اختلافی نوٹ میں کہا کہ سنی اتحاد کونسل کی اپیل مسترد کرتے ہیں۔ جسٹس نعیم افغان نے کہا کہ میں بھی جسٹس امین الدین خان کے اختلافی نوٹ سے اتفاق کرتا ہوں۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسی ٰ اور جسٹس جمال خان مندوخیل نے اختلافی نوٹ میں کہا کہ سنی اتحاد کونسل کوئی ایک نشست بھی نہ جیت سکی۔ سنی اتحاد کونسل نے مخصوص نشستوں کی لسٹ بھی جمع نہیں کرائی۔ آئین نے متناسب نمائندگی کا تصور دیا ہے۔ سپریم کورٹ آئین میں مصنوعی الفاظ کا اضافہ نہیں کر سکتی۔ آئین کی تشریح کے ذریعے نئے الفاظ کا اضافہ کرنا آئین پاکستان کو دوبارہ تحریر کرنے کے مترادف ہے۔ الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی انٹرا پارٹی الیکشن کیس فیصلے کی غلط تشریح کی۔
Comments are closed.