اسلام آباد: چیف جسٹس سپریم کورٹ نے کہاہے کہ عدالت کا فوکس صرف ڈپٹی اسپیکرکی رولنگ پرہے،ترجیح ہے کہ صرف اسی نقطے پرہی فیصلہ ہو، عدالت پارلیمنٹ کے معاملات میں مداخلت نہیں کرتی۔ رضا ربانی نے کہاکہ آرٹیکل 69 کے تحت پارلیمانی کارروائی کواستثنیٰ حاصل ہوتا ہے تاہم اسپیکر کی رولنگ کا آرٹیکل95(2) کے تحت جائزہ لیا جا سکتا ہے۔
ڈپٹی اسپیکرکی رولنگ کےخلاف ازخود نوٹس کی سماعت کی سماعت پانچ رکنی لارجر بینچ نے کی ۔درخواست گزاروں کے وکلاء کے دلائل مکمل کرلیے جبکہ بابراعوان بدھ کو دلائل کا ا ٓغاز کریں گے، چیف جسٹس نے کہاکہہ نگران حکومت کا قیام اس کیس کی وجہ سے رُکا ہے،کوشش ہے کہ بدھ کو فیصلہ سنا دیں۔
چیف جسٹس نے کہاکہ عدالت کا فوکس صرف ڈپٹی اسپیکرکی رولنگ پرہے۔ترجیح ہے کہ صرف اسی نقطے پرہی فیصلہ ہو،ہم پارلیمنٹ کا احترام کرتے ہیں۔عدالت پارلیمنٹ کے معاملات میں مداخلت نہیں کرتی۔عدالت نےصرف اقدامات کی آئینی حیثیت کاجائزہ لینا ہے،پالیسی معاملات کی تحقیقات میں نہیں پڑناچاہتے۔ سماعت کے موقع پر رضا ربانی نےا اسپیکرکی رولنگ کالعدم قرار دیکراسمبلی کوبحال کرنے کی استدعا کرتے ہوئے قومی سلامتی کمیٹی کےمنٹس اورخط طلب کرنے کا مطالبہ کیا۔ رضا ربانی نے کہاکہ آرٹیکل 69 کے تحت پارلیمانی کارروائی کواستثنیٰ حاصل ہوتا ہے تاہم اسپیکر کی رولنگ کا آرٹیکل95(2) کے تحت جائزہ لیا جا سکتا ہے۔مسلم لیگ ن کے وکیل مخدوم علی خان نے دلائل دیئے توجسٹس منیب اخترنےکہاکہ تحریک عدم اعتماد پرکب کیاہونا ہے یہ رولزمیں ہے۔آئین میں نہیں اگرکسی وجہ سے تحریک عدم اعتماد پرووٹنگ آٹھویں روزہوتوکیاغیرآئینی ہوگی؟ وکیل مخدوم علی خان بولے کہ آٹھویں روز ووٹنگ غیرآئینی نہیں،ٹھوس وجہ ہوتو آرٹیکل 254 کاتحفظ حاصل ہوگا،اسمبلی رولزآئین کےآرٹیکل 95 سےبالاترنہیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ تحریک عدم اعتماد پیش کرنے کی اجازت رولزمیں ہے،آئین کورولزکے ذریعےغیرموثرنہیں بنایا جاسکتا۔ جسٹس جمال مندوخیل نے ریماکس دئیے کہ اصل سوال صرف ڈپٹی اسپیکرکی رولنگ کاہے۔کیاعدالت ڈپٹی اسپیکرکی رولنگ کاجائزہ لےسکتی ہے؟ اس نقطے پرمطمئن کریں۔ جسٹس اعجازالاحسن نے واضح کیا کہ عدالت فی الحال صرف آئینی معاملات کو دیکھنا چاہتی ہے۔دوران سماعت اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ یہ میری زندگی کا اہم ترین کیس ہے۔تمام وکلاء کل دلائل مکمل کریں تو پرسوں مجھے موقع دیا جائے۔قومی اہمیت کا کیس ہے عدالت کی تفصیلی معاونت کرنا چاہتا ہوں۔ جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ وقت کم ہے لیکن جلد بازی میں بھی فیصلہ نہیں کرنا چاہتے۔عدالت نے سماعت بدھ ساڑھے 11 بجے تک ملتوی کردی۔
Comments are closed.