اسلام آباد: چیف جسٹس سپریم کورٹ قاضی فائز عیسی ٰ نے کہاہے کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ اور الیکشن ایکٹ ایک ساتھ نہیں چل سکتا، انتخابات آگئے ہیں مگر کسی کو پتانہیں وہ الیکشن لڑےگا یا نہیں، الیکشن ایکٹ میں ترمیم اور سپریم کورٹ کےفیصلے میں سےکسی ایک کوبرقراررکھناہوگا۔
تاحیات نااہلی ،سپریم کورٹ کےفیصلے اور الیکشن ایکٹ ترمیم میں تضاد پر سپریم کورٹ کانوٹس،چیف جسٹس سپریم کورٹ نے کہاکہ سپریم کورٹ کا فیصلہ اور الیکشن ایکٹ ایک ساتھ نہیں چل سکتا، تاحیات نااہلی کی مدت تعین کا معاملہ لارجزبینچ میں مقرر کرنے کے لیے ججز کمیٹی کو بھجوادیا گیا۔
میربادشاہ قیصرانی نااہلی کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ پارلیمنٹ کی قانون سازی چلےگی یاسپریم کورٹ کا فیصلہ، اونٹ کسی کروٹ تو بیٹھنا ہے ۔موجودہ کیس انتخابات میں تاخیر کے آلےکے طورپراستعمال نہیں کیاجائےگا، چیف جسٹس نے کہاکہ اگر کسی کی سزا ختم ہو جائے توتاحیات نااہلی کیسے برقرار رہ سکتی ہے؟ وکیل درخواستگزار نے کہا کہ سپریم کورٹ نے آرٹیکل 62 ون ایف کی تشریح پرپاناماکیس میں فیصلہ دے دیا تھا، حال ہی میں الیکشن ایکٹ میں ترمیم کرکے نااہلی کی زیادہ سے زیادہ مدت 5 سال کردی گئی ہے،جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ الیکشن ایکٹ میں سیکشن 232 شامل کرکے سپریم کورٹ کا آرٹیکل 62 ون ایف کا فیصلہ غیر مؤثر ہوچکا ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ الیکشن ایکٹ میں آرٹیکل 232 شامل کرنے سے تو تاحیات نااہلی کا تصور ختم ہوگیا ہے۔ آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت نااہلی کی مدت پر آئین خاموش ہے، پاکستان کی تباہی کرنے والےکو دوبارہ سیاست میں آناہی نہیں چاہیے مگر آرٹیکل 63 ون جی میں اس کی نااہلی 5 سال ہے، ۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ انتخابات آگئے ہیں مگر کسی کو پتانہیں وہ الیکشن لڑےگا یا نہیں، الیکشن ایکٹ میں ترمیم اور سپریم کورٹ کےفیصلے میں سےکسی ایک کوبرقراررکھناہوگا۔بعد ازاں عدالت نے اٹارنی جنرل اور تمام صوبائی ایڈووکیٹ جنرلزکو نوٹس جاری کرتے ہوئے سماعت 24 جنوری تک ملتوی کردی۔۔۔
Comments are closed.