اسلام آباد: انتخابات میں تاخیرنہیں کی جاسکتی، آٸین کے تحت الیکشن کمیشن تین ماہ میں انتخابات کروانے کا پابند ہے، سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کی نظرثانی درخواست خارج کردی ، جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ الیکشن کمیشن نے کہا تھا کہ سیکورٹی اوربجٹ مل جائےتوانتخابات کرواسکتے ہیں، سپریم کورٹ فیصلہ دے چکی کہ الیکشن کمیشن انتخابات کی تاریخ آگے نہیں بڑھا سکتا آئین کسی کی جاگیرنہیں آٸین پاکستان عوام سےجڑا ہے، چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ جہاں آئین کی خلاف ورزی ہوگی سپریم کورٹ ایکشن لے گی ،کسی ادارے کو اختیار نہیں کہ آئین پر اثر انداز ہو۔
چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے پنجاب عام انتخابات فیصلہ پرالیکشن کمیشن کی نظرثانی درخواست پرسماعت کی ، وکیل الیکشن کمیشن سجیل سواتی نے تیاری کیلئے مزید ایک ہفتے کی مہلت کی استدعا کرتے ہوئے موقف اپنایاکہ الیکشن ایکٹ میں ترمیم کے بعد اب الیکشن کمیشن انتخابات کی تاریخ دے سکتا ہے جسٹس منیب اخترنے ریمارکس دیے کہ وکیل صاحب ذہن میں رکھیں یہ نظرثانی کیس ہے الیکشن کی تاریخ کانظرثانی کیس سے کوئی تعلق نہیں انتخابات کی تاریخ دینے کا مقدمہ پہلے ہی ختم ہوچکا ہے مرکزی کیس الگ تھا نظرثانی میں دوبارہ دلائل نہیں دے سکتے بنچ نے الیکشن کمیشن وکیل سے پوچھا کہ آپ کیا دلائل دے رہے ہیں، کبھی ادھرکبھی ادھرجا رہے ہیں پڑھ کربتائیں کہ فیصلے میں غلطی کہاں ہے ، وکیل الیکشن کمیشن بولے فیصلے میں غلطی یہ ہےکہ الیکشن کمیشن کےپاس انتخابات موخرکرنےکااختیارنہیں ، جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے سپریم کورٹ میں اسطرح کیس میں دلاٸل نہیں دیٸے جاتے
جسٹس منیب اختر نے کہاکہ آئین کہتا ہے 90 دن میں انتخابات ہونگے، الیکشن کمیشن کہتاہے تاریخ تبدیل کرنےکااختیار ہے، عدالت الیکشن کمیشن کی دلیل سے اتفاق نہیں کرتی الیکشن کمیشن کے وکیل ایک دائرے میں گھوم رہے ہیں جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ آئین الیکشن کمیشن کوانتخابات کی تاریخ آگےبڑھانےکااختیارنہیں دیتا وکیل الیکشن کمیشن نے کہاکہ انتخابات 90 روز میں کرانے کی حد پرکچھ وجوہات میں چھوٹ بھی دی گئی ہے سپریم کورٹ فیصلے میں کچھ غلطیاں ہیں جسٹس اعجازالاحسن نے کہاکہ آرٹیکل 218 شق تین کےمطابق الیکشن کمیشن کوانتخابات کا انعقاد کرانے ہیں اوریہ 90 روزکی آئینی مدت میں کرانے ہیں، الیکشن کمیشن نے خود کو یہ چھوٹ خود کیسے دی کہ وہ انتخابات میں تاخیرکرسکیں؟ کمیشن پانچ سال تک یقینی نہیں بناتاکہ انتخابات شفاف ہوسکیں گے توکیا انتخابات نہیں ۔ہوں گے؟ وکیل بولے میری دلیل یہ نہیں ہے۔۔
جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ آپ کا مدعا کیا ہے ، ایک ہی دائرے کے گرد گھومنا بند کریں، ریکارڈ سے دیکھائیں فیصلے میں غلطی کیا ہے؟ دلائل مکمل ہونے پر عدالت نے الیکشن کمیشن کی نظرثانی درخواست خارج کردی ۔۔
Comments are closed.