اسلام آباد:سپریم کورٹ آف پاکستان نے پاکستان تحریک انصاف کی عام انتخابات کے حوالے سے لیول پلیئنگ فیلڈ سے متعلق درخواست پر سماعت ملتوی کردی جبکہ دوران سماعت چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ عدالتیں الیکشن کیلئے ہر سیاسی جماعت کے پیچھے کھڑی ہیں۔
سپریم کورٹ میں چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس مسرت ہلالی پر مشتمل تین رکنی بینچ نے پی ٹی آئی کی لیول فیلڈ پلیئنگ سے متعلق درخواست پر سماعت کی جس کے دوران سردار لطیف کھوسہ نے پارٹی کی بطور وکیل نمائندگی کی۔ سماعت سے قبل پی ٹی آئی وکلاء نے اضافی دستاویزات بھی سپریم کورٹ میں جمع کروائیں جن میں موقف اختیار کیا گیا کہ پی ٹی آئی کے 668 اہم رہنماؤں کے کاغذات مسترد ہوئے، 2000 کے قریب حمایت یافتہ اور سیکنڈ فیز رہنماؤں کے کاغذات نامزدگی کو بھی مسترد کیا گیا۔
کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پی ٹی آئی وکیل لطیف کھوسہ کے ساتھ سردار کا نام ہونے پر برہمی کا اظہار کیا اور ریمارکس دیئے کہ سرداری نظام ختم ہو چکا ہے یہ سردار نواب عدالت میں نہیں چلے گا۔
جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ الیکشن کمیشن نے آپ کو آرڈر کیا دیا؟ جس پر لطیف کھوسہ نے بتایا کہ ہمیں الیکشن کمیشن نے کچھ آرڈر نہیں دیا ، جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیئے کہ آپ نے اتنے لوگوں کو توہین عدالت کیس میں فریق بنایا، آپ بتائیں کس نے کیا توہین کی ہے۔
لطیف کھوسہ نے کہا کہ ہمارے امیدواروں کی راہ میں رکاوٹ ڈالی گئی جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ثبوت کیا ہیں ہمیں کچھ دکھائیں جس پر لطیف کھوسہ نے جواب دیا کہ میں نے ساری تفصیل درخواست میں لگائی ہے۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ توہین عدالت کیس میں آپ صرف الیکشن کمیشن کو فریق بنا سکتے تھے، آئی جی اور چیف سیکریٹریز کو نوٹس بھیجا وہ کہیں گے ہمارا تعلق نہیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آپ انفرادی طور پر لوگوں کے خلاف کارروائی چاہتے ہیں تو الگ درخواست دائر کریں ، کسی کے کاغذات نامزدگی مسترد ہوئے ہیں تو اپیل دائر کریں جس پر لطیف کھوسہ نے کہا کہ ہمیں اپیل کرنے کے لیے آراو آرڈرز کی نقل تک نہیں مل رہی۔ چیف جسٹس نے پی ٹی آئی کے وکیل لطیف کھوسہ سے کہا آپ کے پاس اپیل کا فورم موجود ہے اسے استعمال کریں، اگر اپیل کے فورم سے ریلیف نہ ملے تو سپریم کورٹ آجائیں۔ لطیف کھوسہ کا کہنا تھا جو کچھ ہو رہا ہے یہ کبھی ملکی تاریخ میں نہیں ہوا، ملک میں بدترین صورتحال پرکوئی آنکھیں کیسے بند کرسکتا ہے؟
آئی جی، چیف سیکرٹری اور ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کو نوٹسز جاری کرتے ہوئے کیس کی سماعت 8 جنوری تک ملتوی کر دی اور کہا کہ الیکشن کمیشن نے الیکشن کمیشن پنجاب کے خط کے جواب میں ہدایات جاری کی تھیں، بتایا جائے کہ الیکشن کمیشن کی ہدایات پرعملدرآمد ہوا یا نہیں؟
Comments are closed.