ہر ادارے کو اپنی حدود میں رہنا چاہئے، پارلیمان کو قانون سازی کرنے کا حکم نہیں دے سکتے، چیف جسٹس

 اسلام آباد: سپریم کورٹ میں جبری گمشدگیوں اور لاپتہ افراد کیس کی براہ راست سماعت ہوئی ۔چیف جسٹس سپریم کورٹ قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہے کہ ہر ادارے کو اپنی حدود میں رہنا چاہیے۔سپریم کورٹ پارلیمان کو قانون سازی کرنے کا حکم نہیں دے سکتی۔ پاکستان میں جو شخص عہدے پر ہوتا ہے وہ دوسرے پر ذمہ داری ڈال دیتا ہے۔

سماعت کے آغاز پر درخواست گزار خوشدل خان ملک نے کہا کہ عدالت حکومت کو جبری گمشدہ افراد سے متعلق قانون سازی کا حکم دے۔ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ جبری گمشدگیوں سے متعلق کمیشن بنا تو ہوا ہے، درخواست گزارنے کہاکہ عدالت حکومت کو نوٹس کر کے پوچھے کہ 50 سال سے لاپتہ افراد کے بارے قانون سازی کیوں نہیں کی؟چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیے کہ عدالت کیسے پارلیمنٹ کو حکم دے سکتی ہے کہ فلاں قانون سازی کرو؟ آئین کی کون سی شق عدالت کو اجازت دیتی ہے کہ پارلیمنٹ کو قانون سازی کا حکم دے؟ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ عدالت قانون سازی کا اختیار نہیں رکھتی صرف قانون کالعدم قرار دے سکتی ہے۔

پی ٹی آئی وکیل شعیب شاہین سے مکالمہ کرتے ہوئے چیف جسٹس نے کہاکہ یا تو جو شخص اٹھایا گیا وہ آئے اور کہے میرے ساتھ ظلم ہوا، ہم اس کو سن لیں گے۔آپ چاہتے ہیں ہم انکوائری کمیشن کو مسترد کردیں؟ ہم آپ کو سیاسی باتیں نہیں کرنے دینگے ، وکیل نے جتنے افراد کا نام لیا یہ سب پارٹی چھوڑ گئے توہم کیاکر سکتے ہیں۔پی ٹی آئی کے وکیل نے شیخ رشید اور دیگر سیاسی افراد کی گمشدگیوں کا معاملہ اٹھایا تو چیف جسٹس نے کہاکہ جو شخص دھرنا کیس میں نظرثانی لا سکتا ہے کیا اپنا کیس نہیں لاسکتا۔ عدالت نے مزید سماعت بدھ تک ملتوی کردی ۔

Comments are closed.