اسلام آباد:نیب ترامیم کیس میں چیف جسٹس نے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ پر موقف واضع کر دیا۔ ایکٹ کو آئین کے ڈھانچے اور عدلیہ کی آزادی پر حملہ قرار دیدتے ہوئے کہا، ایکٹ کے ذریعے عدلیہ کی آزادی پر حملہ کیا گیا ، اس کی آزادی کی بنیادیں ہلا دی گئیں، ہم نے اس لیے حکم امتناع دیا۔وہ ریمیڈی دی گئی جو آئین میں موجود ہی نہیں، کیا سپریم کورٹ اپنا کام بند کر دے ۔
چیف جسٹس نے کہاکہ کیا کسی معطل شدہ قانون کی روشنی میں تمام مقدمات پر سماعت روک دیں، اگر قانون موجود ہے تو پھر ترمیم کی بات کیوں کی گئی۔وکیل مخدوم علی خان نے استدعا کی کہ عدالت کسی بھی قانون کوکالعدم قرار دینے سے قبل انتہائی احتیاط کرے، چیف جسٹس نے کہا کہ ہم کسی قانون کو کالعدم قرار نہیں دے رہے، اس قانون کے ذریعے آئین کی خلاف ورزی کی گئی اور پہلی بار سپریم کورٹ کے انتظامی امور میں مداخلت کی گئی، وہ ریمیڈی دی گئی جو آئین میں موجود ہی نہیں، بات یہ ہے کہ کیا سپریم کورٹ اپنا کام بند کر دے۔
جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں اس قانون میں ایسی ترامیم کی جائیں کہ آئین سے مطابقت نظر آئے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ چیف جسٹس پاکستان سے گزارش کرتا ہوں کہ نیب ترامیم سے پہلے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کا فیصلہ دیا جائے، یا پھر سپریم کورٹ نیب ترامیم پر فل کورٹ تشکیل دے۔وکیل مخدوم علی خان نے دلائل دئیے کہ کسی ملک کا کوئی ایسا فیصلہ نہیں ملا کہ جو سزا میں کمی پر کالعدم قرار دیاگیاہو۔سپریم کورٹ نے کیس کی مزید سماعت بدھ تک ملتوی کردی۔
Comments are closed.