سپریم کورٹ کا بڑا فیصلہ،نیب ترامیم کالعدم قرار، سیاستدانوں کے مقدمات بحال

 اسلام آباد: سپریم کورٹ نے نیب ترامیم کالعدم قرار دیدیں ۔عدالت نے فیصلے میں قرار دیا کہ نیب دائرہ اختیا رسے نکلنے والے تمام افراد کے مقدمات بحال کیے جاتے ہیں۔ نیب کو سات دن میں تمام ریکارڈ متعلقہ عدالتوں کوبھیجنے کا حکم بھی دیدیا۔ چئیرمین پی ٹی آئی عمران خان کی درخواست بھی قابل سماعت قرار دے دی گئی۔نیب دائر اختیار سے نکلنے والے تمام کرپشن بحال ، کرپشن کیسزجہاں رُکے تھے وہیں سے شروع کرنے کا حکم دے دیاگیا۔

چیف جسٹس عمر عطاء بندیال کی سربراہی میں جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس اعجاز الااحسن پر مشتمل تین رکنی بینچ نے دو ایک کی اکثریت سے فیصلہ سنایا۔ فیصلے میں کہاگیا ہےکہ 50 کروڑ روپے سے کم ریفرنسز نیب دائرہ کار سے خارج قرار دینے کی شق کالعدم قرار دی جاتی ہے اورعوامی عہدوں پر بیٹھے تمام افراد کے مقدمات بحال کیے جاتے ہیں۔نیب ایسے تمام کرپشن کیسز کا ریکارڈ سات روز کے اندر متعلقہ عدالتوں کو فراہم کرے۔۔عدالت نے قرار دیا کہ ختم نیب ریفرنسز کو اسی دن سے بحال کیاجارہاہے جب سے ترامیم آئی ہیں۔ عدالتی فیصلے میں پلی بارگین کے حوالے سے کی گئی نیب ترمیم بھی کالعدم قرار دے دی گئی ہیں ۔فیصلے میں کہا گیا ہے کہ نیب ترامیم سے مفاد عامہ کے آئین میں درج حقوق متاثر ہوئے، نیب ترامیم کے تحت بند کی گئی تمام تحقیقات اور انکوائریز بحال کی جائیں۔۔ عدالت نے نیب ترامیم کی متعدد شقیں آئین کے برخلاف قرار دے دیں۔۔۔

سپریم کورٹ نے  نیب ترامیم کیس کا  تفصیلی  فیصلہ جاری کردیا

فیصلے میں  کہاگیاہے کہ نیب  ترامیم سے عوامی نمائندوں کو احتساب سے استثنی بھی دیا گیا۔نیب قانون میں کرپشن کی حد پچاس کروڑ تک کرنا عوامی نمائندوں کو معافی دینے کے مترادف ہے۔نیب سیکشن 3 اور سیکشن 4 سے متعلق ترامیم کالعدم قرار ، پارلیمنٹ میں رہنا یا نہ رہنا سیاسی فیصلہ ہے،عدالت سیاسی جماعتوں کے سیاسی فیصلوں کا جائزہ نہیں لے سکتی۔۔

58 صفحات پر مشتمل فیصلے میں کرپشن اور بے ایمانی کی تعریف کے حوالے سے کی گئی ترمیم بھی کالعدم قرار دے دی گئی جبکہ سروس آف پاکستان کے خلاف دائر ریفرنسز کیلئے سیکشن 9 اے فائیو میں کی گئی ترمیم برقرار رہے گی ۔ عدالت نے قرار دیاکہ نیب ترامیم آرٹیکل 9 ، 14 ، 24 اور 25 متصادم ہیں، پارلیمنٹ نے ترامیم کے ذریعے 50 کروڑ سے کم کرپشن معاف کرکے عدلیہ کا اختیار استعمال کیا۔این آر او کیس میں بھی عدالت کا موقف تھا کہ کیسز عدلیہ ہی ختم کر سکتی ہے، ، فیصلے میں کہاگیاہے کہ درخواست اس بنیاد پر مسترد کرنا غیر مناسب ہے کہ ترامیم کی پارلیمنٹ میں مخالفت نہیں کی گئی۔۔

دو ، ایک کے تناسب سے جار ی اکثریتی تحریری فیصلے میں کہا گیا ہے کہ پلی بارگین میں عدالتی اختیار کو ختم کرنا عدلیہ کی آزادی اور آئین کے آرٹیکل 175/3 کے بر خلاف ہے، نیب قانون میں مجرم اور پلی بارگین کرنے والے عوامی عہدے کیلئے نااہل قرار دیے گئے ہیں، پلی بارگین کے ملزمان کو رعایت دینا خود نیب قانون کی سیکشن 15 کیخلاف ہے۔بیوروکریسی کو غیر ضروری حراساں کرنے سے روکنے کی حد تک ترامیم اچھی کاوش ہیں لیکن ترامیم سے عوامی نمائندوں کو احتساب سے استثنی بھی دیا گیا۔نیب قانون میں کرپشن کی حد پچاس کروڑ تک کرنا عوامی نمائندوں کو معافی دینے کے مترادف ہے، معافی کا اختیار صرف عدالت یا سزا ک بعد صدر مملکت کو ہے، پارلیمنٹ نے ترامیم کے ذریعے 50 کروڑ سے کم کی کرپشن معاف کرکے عدلیہ کا اختیار استعمال کیا۔ 598ریفرنسز میں سے صرف 54 ریفرنسز دیگر عدالتوں کومنتقل ہوئے ۔

جسٹس منصور علی شاہ کا اختلافی نوٹ

جسٹس منصور علی شاہ نے اختلافی نوٹ میں لکھا کہ میں نے گزشتہ رات اکثریتی فیصلہ پڑھا، جس سے میں اتفاق نہیں کرتا، وقت کی کمی کے باعث اپنے اختلافی نوٹ کی تفصیلی وجوہات بعد میں جاری کروں گا، بنیادی سوال نیب ترامیم کا نہیں بلکہ 24 کروڑ عوام کی منتخب پارلیمنٹ کا ہے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے لکھا کہ بنیادی سوال پارلیمانی جمہوریت میں آئین کی اہمیت اور ریاست کے اختیارات کی تقسیم کا ہے، بنیادی سوال بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کے بغیر غیر منتخب ججز کا پارلیمنٹ کے پاس کردہ قانون پر فیصلہ سازی کی حدود سے متعلق ہے۔انہوں نے لکھا کہ ’میری رائے میں اکثریتی فیصلہ یہ سمجھنے میں ناکام رہا کہ ریاست کے اختیارات عوام کے منتخب نمائندوں کے ذریعے استعمال کیے جائیں گے، اکثریتی فیصلہ آئین میں دی گئی اختیارات کی تقسیم کی مماثلث کو سمجھنے میں بھی ناکام رہا جو جمہوری نظام کی بنیاد ہے، کیس میں سوال غیر قانونی ترامیم کا نہیں پارلیمنٹ کی بالادستی کا تھا‘۔

جسٹس منصور علی شاہ نے لکھا کہ اکثریتی فیصلہ پارلیمنٹ کے اختیارات کو سمجھنے میں ناکام رہا، پارلیمنٹ کا قانون سازی کا اختیار کبھی ختم نہیں ہوتا، اگر پارلیمنٹ نیب قانون بنا سکتی ہے تو اس کو واپس بھی لے سکتی ہے اور ترمیم بھی کر سکتی ہے، میں اکثریتی فیصلے سے اتفاق نہ کرتے ہوئے درخواست مسترد کرتا ہوں۔

 

Comments are closed.