سپریم کورٹ کا سینیٹ الیکشن طریقہ کار پر فریقین کو تحریری سفارشات پیش کرنے کا حکم

سینیٹ انتخابات کے طریقہ کار الیکشن ایکٹ میں درج ہوگا، کیا کوئی قانون آئین سے بالاتر ہوسکتا ہے، جسٹس اعجاز الاحسن

سپریم کورٹ آف پاکستان نے سینیٹ انتخابات اوپن بیلٹ کے ذریعے کرانے کے لیے دائر صدارتی ریفرنس پر ابتدائی سماعت کی۔ عدالت نے قومی اورصوبائی اسمبلیوں کے اسپیکرز، چیئرمین سینیٹ، الیکشن کمیشن اور تمام ایڈووکیٹ جنرلز کو نوٹسز جاری کر کے تحریری سفارشات طلب کر لیں۔

چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں پانچ رکنی بینچ نے دائر صدارتی ریفرنس کی سماعت کی۔ عدالتی استفسار پر اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے دلائل دئیے کہ ریفرنس میں سینیٹ الیکشن خفیہ رائے شماری سے نہ کرانے کا قانونی سوال اٹھایا گیاہے۔عام انتخابات الیکشن ایکٹ 2017 کے تحت ہوئے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ چاروں صوبائی حکومتوں اور الیکشن کمیشن کو نوٹس جاری کر رہے ہیں اور ان کے جواب کا جائزہ لیں گے۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دئیے کہ آپ چاہتے ہیں ،عدالت آئین اور قانون کے تحت ہونے والے انتخابات میں فرق واضح کرے۔ آئین میں سینیٹ اور اسمبلی انتخابات کا ذکر ہے لیکن مقامی حکومتوں کے انتخابات کا نہیں۔سینیٹ انتخابات کیسے ہونے ہیں یہ بات الیکشن ایکٹ میں درج ہوگی اور الیکشن ایکٹ بھی آئین کے تحت ہی بنا ہوگا۔ کیا کوئی قانون آئین سے بالاتر ہو سکتا ہے؟

جسٹس اعجاز الاحسن نے مزید کہا کہ سینیٹ کا الیکشن اوپن بیلٹ سے کرانے کیلئے سیاسی اتفاق رائے کیوں پیدا نہیں کیا جاتا؟کیا کسی مرحلے پر قومی اسمبلی کا الیکشن بھی اوپن بیلٹ کے ذریعے کرایا جاسکتا ہے، اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ یہ کوئی سیاسی معاملہ نہیں، عدالت سے آئینی اور قانونی رائے مانگی گئی ہے۔

جسٹس یحیٰی آفریدی نے ریمارکس دئیے کہ چارٹر آف ڈیموکریسی میں سیاسی جماعتوں کا اسی نکتے پر اتفاق رائے ہوا تھا۔ صدارتی ریفرنس کی مزید سماعت 11 جنوری کو ہوگی۔ سماعت کے بعد میڈیا سے گفتگو میں سینیٹر فیصل جاوید نے کہا کہ اپوزیشن الیکشن میں دھاندلی کی باتیں کرتی ہے لیکن اوپن بیلٹ کے خلاف ہے۔

Comments are closed.