سینیٹ انتخابات اوپن بیلٹ کے ذریعے ہوں گے یا نہیں، صدارتی ریفرنس کی سپریم کورٹ میں سماعت ہوئی ۔ چیف جسٹس کہتے ہیں، آرٹیکل 226 کا اطلاق ہو تومخصوص نشستوں کے انتخابات ہو ہی نہیں سکتے۔جسٹس یحییٰ آفریدی کہتے ہیں ،حکومت عدالت سے کیوں رائے مانگ رہی ہے، پارلیمنٹ سے رجوع کرے،اٹارنی جنرل کہتے ہیں، ایم پی اے جسے مرضی ووٹ دے تو پارٹی کیسے چلے گی۔
چیف جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دئیے کہ ہم آئین کے محافظ ہیں، جسٹس اعجازالاحسن نے کہاکہ خفیہ ووٹنگ میں پارٹی پالیسی کے خلاف ووٹ دینا بے ایمانی ہو گی ، جسٹس یحییٰ آفریدی بولے حکومت عدالت سے کیوں رائے مانگ رہی ہے، پارلیمنٹ سے رجوع کرے۔
اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے دلائل دیئے کہ چیئرمین سینیٹ،ڈپٹی چیئرمین،وزیراعظم،وزرائے اعلیٰ کے انتخابات الیکشن کمیشن اورالیکشن ایکٹ میں واضح نہیں،اسپیکر اور ڈپٹی سپیکر کا انتخاب بھی الیکشن کمیشن نہیں کراتا،ارکان سینٹ کا انتخاب الیکشن ایکٹ کے تحت ہوتا ہے،جرمنی والا طریقہ کار پاکستان میں مخصوص نشستوں پر ہوتا ہے،شہری جس کو چاہے ووٹ دے سکتا ہے،لیکن ایم پی اے نہیں۔
جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ منتحب نمائندہ عوام اور پارٹی سربراہ کو جوابدہ ہوتا ہے،ایم پی اے کو خفیہ رائے شماری میں آزادانہ ووٹ کا حق دینا اہم سوال ہے،انتخابات میں لوگ امیدوار نہیں پارٹی کو ووٹ دیتے ہیں،جسٹس عمرعطا بندیال نے ریمارکس دیئے کہ پارٹی ڈسپلن کی پابندی وزیراعظم اور بجٹ منظوری پر ہی ہے۔جرمنی میں سیاسی جماعتیں طے کرتی ہیں کہ کون کون رکن اسمبلی بنے گا۔
اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ ایم پی اے جسے مرضی ووٹ دے تو پارٹی کیسے چلے گی۔پارٹی کا نمائندہ ڈسپلن کا بھی پابند ہوتا ہے۔جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا کہ آپ اخلاقی بات کر رہے۔عدالت میں معاملہ سیاسی ہے۔اخلاقی اور سیاسی معاملے پرعدالت اپنی رائے کیوں دے۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ ریفرنس میں ایک سوال ہارس ٹریڈنگ،دوسرا الیکشن کی شفافیت کا ہے،عدالت میں سوال آرٹیکل 226 کے سینٹ الیکشن پر اطلاق کا ہے،عدالت تشریح کرے ، عدالت جو بھی رائے دیگی اس پر فیصلہ پارلیمان نے کرنا ہے،2006 کے میثاق جمہوریت میں اوپن بیلٹ کا وعدہ کیا گیا۔
جسٹس اعجازالاحسن کا کہنا تھا کہ آرٹیکل 226 کے مطابق وزیراعظم اور وزیراعلیٰ کے علاوہ تمام الیکشن خفیہ ووٹنگ سے ہونگے،کوئی رکن صوبائی اسمبلی پارٹی کیخلاف ووٹ دینا چاہتا ہے تو سامنے آ کردے۔آئین کے آرٹیکل 53 اور 60 میں ذکر نہیں کہ انتخابات خفیہ ہونگے یا اوپن بیلٹ سے۔چیف جسٹس نے کہا کہ آرٹیکل 226 کا اطلاق ہو تومخصوص نشستوں کے انتخابات ہو ہی نہیں سکتے، عدالت نے سماعت جمعرات تک ملتوی کردی۔
Comments are closed.