جہاں آئین کی خلاف ورزی ہو وہاں سپریم کورٹ مداخلت کر سکتی ہے،چیف جسٹس

 اسلام آباد: چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہاہے کہ بظاہر عدم اعتماد کی تحریک کامیاب ہونے جا رہی تھی، لیکن جس دن ووٹنگ ہونا تھی اس دن رولنگ آ گئی۔چیف جسٹس نے کہا کہ پارلیمنٹ کے تقدس کا احترام کرتے ہیں، لیکن جہاں آئین کی خلاف ورزی ہو سپریم کورٹ مداخلت کر سکتی ہے، آرٹیکل 69 اپنی جگہ لیکن جو ہوا اس کی بھی کہیں مثال نہیں ملتی، ‏اگر اسے ہونے دیا گیا تو اس کے بہت منفی اثرات ہوسکتے ہیں۔

اسپیکررولنگ ازخود نوٹس کیس کی سماعت ہوئی ،درخواستوں گزاروں کے وکلاء اور صدر مملکت کے وکیل نے دلائل مکمل کرلیے۔اٹارنی جنرل ،اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کی وکیل نعیم بخاری جمعرات کو دلائل دیں گے ۔ چیف جسٹس نے کہا ہے کہ فیصلہ کرنے سے پہلے جاننا چاہتے ہیں کہ سازش کیا ہے جس کی بنیاد پر رولنگ دی گئی۔

تحریک انصاف کے وکیل بابر اعوان نے دلائل میں کہا کہ اپوزیشن جماعتیں چاہتی ہیں قومی سلامتی کمیٹی کا رولنگ میں دیا گیا حوالہ نظرانداز کیا جائے اور عدالت ان کے حق میں فوری مختصر حکمنامہ جاری کرے، کیس میں جس برطانوی عدالت کے فیصلے کا حوالہ دیا گیا وہ کیس میں لاگو نہیں ہوتا۔چیف جسٹس نے کہا کہ نیشنل سیکورٹی کمیٹی اجلاس کے منٹس کدھر ہیں، ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ میں بظاہر الزامات ہیں کوئی فائنڈنگ نہیں، کیا اسپیکر حقائق سامنے لائے بغیر اس طرح کی رولنگ دے سکتا ہے؟ یہی آئینی نقطہ ہے جس پر عدالت نے فیصلہ دینا ہے، کیا اسپیکر آرٹیکل 95 سے باہر جا کر ایسی رولنگ دے سکتا ہے جو ایجنڈے پر نہیں، ڈپٹی اسپیکر نے رولنگ میں نتیجہ اخذ کیا ہے، فیصلہ کرنے سے پہلے جاننا چاہتے ہیں کہ سازش کیا ہے جس کی بنیاد پر رولنگ دی گئی۔

 بابر اعوان نے درخواست کی کہ کیا کچھ باتیں ان کیمرا ہو سکتی ہیں؟ فارن آفس نے جو بریفنگ دی وہ عدالت کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں۔ عدالت نے بابر اعوان کی ان کیمرا بریفنگ کی استدعا مسترد کردی۔بابر اعوان نے ترجمان پاک فوج کی نجی ٹی وی سے گفتگو بھی عدالت میں پیش کرتے ہوئے کہا کہ ترجمان پاک فوج نے کہا قومی سلامتی کمیٹی میٹنگ کے اعلامیہ سے متفق ہیں۔چیف جسٹس نے پوچھا کہ کیا تحریک عدم اعتماد کو ووٹنگ کے علاوہ بھی نمٹایا جا سکتا ہے؟جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ تحریک عدم اعتماد کو پیش کرنے کی منظوری سے پہلے نمٹایا جا سکتا ہے۔جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ فلور کراسنگ ہر جماعت کیساتھ ہوتی رہی ہے، سیاسی جماعتوں کو سوچنا ہوگا کہ لوگ انہیں کیوں چھوڑ کر جاتے ہیں۔

صدر مملکت کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے دلائل دیتے ہوئے آرٹیکل 184/3 کے تحت دائر درخواستوں کے قابل سماعت ہونے پر اعتراض کردیا۔انہوں نے کہا کہ آرٹیکل 69 عدالت اور پارلیمان کے درمیان حد مقرر کرتا ہے، آرٹیکل 69 آگ کی دیوار ہے جسے عدالت پھلانگ کر پارلیمانی کارروائی میں مداخلت نہیں کر سکتی، اگر عدالت میں ایک کیس چل رہا ہے تو پارلیمنٹ اس پر تبصرہ نہیں کرتی،عدالت بھی پارلیمنٹ کی کارروائی میں مداخلت نہیں کرتی، عدالت کی طرف سے کوئی بھی ڈائریکشن دائرہ اختیار سے تجاوز ہو گا، ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کیخلاف عدالت سے رجوع کرنا پارلیمنٹ میں مداخلت ہے، اسپیکر کو دی گئی ہدایات دراصل پارلیمنٹ کو ہدایات دینا ہوگا جو غیرآئینی ہے، اسپیکر کی رولنگ کا جائزہ لیا تو سپیکر کا ہر فیصلہ ہی عدالت میں آئے گا۔چیف جسٹس نے پوچھا کہ پارلیمنٹ آئین کی خلاف ورزی کرے کیا تب بھی مداخلت نہیں ہو سکتی؟ علی ظفر نے جواب دیا کہ عدالت کو سپیکر کی رولنگ کا جائزہ لینے کا اختیار نہیں ہے۔جسٹس جمال خان نے پوچھا کہ اسپیکر کی رولنگ کو کیسے ختم کیا جا سکتا ہے؟ وکیل علی ظفر نے جواب دیا کہ اسپیکر کی رولنگ کو ہاؤس ختم کر سکتا ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کا نکتہ دلچسپ ہے کہ اسپیکر کی رولنگ غلط ہو تو بھی اسے استحقاق ہے، رولنگ کے بعد اسمبلی تحلیل کرکے انتخابات اور عوام کے پاس جانے کا اعلان کیا گیا ہے، ن لیگ کے وکیل سے پوچھیں گے عوام کے پاس جانے میں کیا مسئلہ ہے؟جسٹس اعجاز الاحسن نے بھی کہا کہ الیکشن میں جانے سے کسی کے حقوق کیسے متاثر ہو رہے ہیں؟چیف جسٹس نے کہا کہ پارلیمنٹ کے تقدس کا احترام کرتے ہیں لیکن جہاں آئین کی خلاف ورزی ہو سپریم کورٹ مداخلت کر سکتی ہے، آرٹیکل 69 اپنی جگہ لیکن جو ہوا اس کی بھی کہیں مثال نہیں ملتی، ‏اگر اسے ہونے دیا گیا تو اس کے بہت منفی اثرات ہوسکتے ہیں، بظاہر عدم اعتماد کی تحریک کامیاب ہونے جا رہی تھی، جس دن ووٹنگ ہونا تھی اس دن رولنگ آ گئی، تحریک عدم اعتماد پر ڈپٹی اسپیکر رولنگ نے نئی روایت قائم کی اور ایک نیا رستہ کھول دیا ہے۔سپریم کورٹ میں پنجاب اسمبلی اجلاس کا معاملہ بھی زیر بحث آیا۔ سیکرٹری پنجاب اسمبلی کے وکیل نے پیش ہوکر بتایا کہ اسمبلی میں کافی توڑ پھوڑ ہوئی تھی اس لئے اجلاس 16 اپریل تک ملتوی ہوا، ڈپٹی اسپیکر آج صبح سے غائب ہیں ان سے رابطہ نہیں ہو رہا، آج شام ہونے والا اجلاس کا نوٹیفکیشن جعلی ہے۔ن لیگ کے وکیل نے کہا کہ حکومت کے پاس اکثریت نہیں ہے اس لئے الیکشن نہیں ہونے دیا جا رہا۔چیف جسٹس نے کہا کہ سسٹم تعاون نہ کر رہا ہو تو آئینی عہدیدار اختیار استعمال کر سکتے ہیں، ڈپٹی اسپیکر چاہیں تو اجلاس باغ جناح میں بھی بلا سکتے ہیں، عدالت نے سماعت جمعرات صبح 9:30 تک ملتوی کردی۔

Comments are closed.