سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خارجہ کی چیئرپرسن شیری رحمان کا کہنا ہے کہ افغانستان میں انسانی بحران پیدا ہونے کا خدشہ ہے، پارلیمان کا مشترکہ اجلاس بلایا جائے، وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی کا کہنا ہے کہ افغانستان پر ایک مربوط حکمت عملی اپنانے کے خواہاں ہیں، دنیا کو افغان طالبان کے ساتھ رابطہ رکھنا چاہیے۔
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے امورخارجہ کا اجلاس چیئرپرسن شیری رحمان کی زیرصدارت پارلیمنٹ ہاؤس میں ہوا، جس میں وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی، سیکریٹری خارجہ سہیل محمود، وزارت خارجہ کے ڈی جی برائے افغانستان نے شرکت کی۔
کمیٹی کو بریفنگ دیتے ہوئے وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ افغانستان سے انخلاء میں پاکستان نے مثبت اور تعمیری کردار ادا کیا، عالمی برادری پاکستان کی انخلاء اور قیام امن کی کوششوں کی معترف ہے، پاکستان کئی دہائیوں سے30 لاکھ سے زائدافغان مہاجرین کی میزبانی کر رہا ہے، عالمی برادری کو افغان طالبان کے ساتھ رابطے رکھنا چاہیے۔
اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے شاہ محمود قریشی نے کہا کہ افغانستان کی صورتحال پر کمیٹی اراکین کو اعتماد میں لیا،اجلاس میں موجود پارلیمنٹ کی تمام جماعتوں نے پاکستان کے کردار کو سراہا اور اس وقت تک چاہے امن عمل ہو، انخلا یا چاہے انسانی بنیادوں پر امداد کی بات ہو اس میں پاکستان کے مثبت کردار کی تعریف کی گئی۔
وزیرخارجہ نے کہا کہ میں نے اپنے حالیہ 4 ملکی دورے اور وہاں قیادت سے ہونے والی ملاقاتوں کے حوالے سے اپنا تجزیہ پیش کیا جبکہ اراکین کمیٹی کو بتایا کہ افغانستان پر ایک مربوط حکمت عملی اپنانے کے خواہاں ہیں، خوشی ہے کہ پاکستان کے اقدامات کو مثبت طور پر دیکھا جا رہا ہے۔
چیئرپرسن کمیٹی شیری رحمان کا کہنا تھا کہ مشکل حالات ہیں اور پاکستان کو خطرات لاحق ہو سکتے ہیں، ہمارا مطالبہ ہے کہ افغانستان کے معاملے پر پارلیمان کا مشترکہ اجلاس بلایا جائے، پیپلز پارٹی ہمیشہ قومی معاملات مشترکہ اجلاس بلا کر یکجہتی پیدا کرتی تھی، قومی یکجہتی کا کوئی متبادل نہیں۔ ساری دنیا دیکھے گی کہ پاکستان کے پارلیمان کی آواز ہے۔
انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی کے دور میں پارلیمان کی شراکت دار فعال تھی، اس شراکت داری کو بحال کرنے کی ضرورت ہے، مہاجرین اور دیگر معاملات پر گفت و شنید ہونی چاہئے، افغانستان میں انسانی بحران پیدا ہونے کا خدشہ ہے، پیپلز پارٹی حکومت میں افغانستان میں مداخلت نہ کرنے کی پالیسی طے ہوئی تھی۔
Comments are closed.