لاہور ہائی کورٹ نے منی لانڈرنگ و آمدن سے زائد اثاثہ جات کے مقدمے میں مسلم لیگ نون کے صدر شہباز شریف کی عبوری ضمانت کی درخواست خارج کر دی، جس کے بعد نیب نے شہباز شریف کو گرفتار کر لیا۔
جسٹس سردار احمد نعیم اور جسٹس فاروق حید پر مشتمل عدالت عالیہ کے دو رکنی بینچ نے مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف کی درخواست ضمانت پر سماعت کی۔ شہبازشریف کے وزارت اعلیٰ کے دور کے ترقیاتی منصوبوں سے متعلق تفصیلات عدالت میں جمع کرائی گئیں۔
شہباز شریف کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ ان کے موکل اب تک ایک ہزار ارب روپے کی بچت کر چکے ہیں، شہباز شریف نے آج تک بطور ممبراسمبلی تنخواہ تک وصول نہیں کی، شہباز شریف کو جیل بھیجنے کا کوئی فائدہ نہیں، بلدیاتی انتخابات کے موقع پر جیل بھیجنے کا دعویٰ کیا جا رہا ہے۔
شہباز شریف کے وکیل نے دلائل کے دوران موقف اپنایا کہ منی لانڈرنگ میں بھی کوئی ثبوت موجود نہیں، کسی گواہ نے نہیں کہا کہ شہباز شریف نے منی لانڈرنگ کی، 26 کروڑ90 لاکھ کے اثاثے شہباز شریف کے ہیں، زرعی آمدن پر ٹیکس ادا کرتے رہے ہیں، قومی احتساب بیورو کی بدنیتی واضح طور پر نظر آ رہی ہے۔
اپوزیشن لیڈر نے عدالت سے بات کرنے کی استدعا کی تو جسٹس سردار نعیم نے کہا کچھ رہ گیا ہے تو کہہ دیں۔ جس پر شہباز شریف نے کہا کہ خطا کار انسان ہوں لیکن پنجاب کے عوام کی خدمت کی، نیب کو 250 سال لگ جائیں، ایک دھیلے کی کرپشن نہیں ملے گی، ضمیر کے مطابق فیصلے کیے، میرے بھائیوں اور بچوں کو نقصان ہوا۔
مسلم لیگ (ن) کے صدر کا کہنا تھا کہ انہوں نے بجلی منصوبوں، اورنج لائن جیسے میگا پراجیکٹس میں عوامی دولت کو بچایا، اپنے اعمال کا جوابدہ ہوں، بچوں کا نہیں، سبسڈی نہ دینے پر بیٹوں، بھائیوں کی شوگر ملز کو 90 کروڑ کا نقصان ہوا، عدالت نے فریقین کے دلائل سننے کے بعد شہباز شریف کی عبوری ضمانت کی درخواست مسترد کردی جس کے بعد نیب نے انہیں حراست میں لے کر نیب دفتر منتقل کردیا ہے۔
اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کی پیشی کے موقع پرلیگی کارکنوں کی بڑی تعداد عدالت کے باہرموجود تھی،عدالت کی جانب سے ضمانت میں توسیع نہ ملنے اور نیب کی گرفتاری کے بعد لیگی کارکن مشتعل ہوگئے اور احاطہ عدالت میں شدید نعرے بازی کی۔ اس موقع پر پولیس کی جانب سے سکیورٹی کے بھی انتہائی سخت انتظامات کئے گئے تھے اور اینٹی رائٹ فورس کے دستوں کو لاہور ہائیکورٹ کے اندر و اطراف میں تعینات کیا گیا تھا۔
Comments are closed.