شوکت صدیقی کیس:تاریخ درست کرنا چاہتے ہیں تو بتا دیں ،مقصد پنشن ہے تو وہ مل جائے گی، چیف جسٹس سپریم کورٹ

 اسلام آباد: سپریم کورٹ نے شوکت عزیز صدیقی برطرفی کیس کی سماعت فیض حمید سمیت چار افراد کو نوٹس جاری کر دئیے ۔ قمر جاوید باجوہ، طاہر وفائی، فیصل مروت کو نوٹس جاری نہیں کیاگیا۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسی ٰ نے ریمارکس دئیے کہ سپریم کورٹ کو کسی کے مقاصد کے حصول کے لیے استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ اگر پاکستان کی تاریخ درست کرنا چاہتے ہیں تو بتا دیں ہم آپ کی مدد کرنے کو تیار ہیں،مقصد صرف پنشن ہے تو وہ مل جائے گی ۔۔

چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں قائم پانچ رکنی لارجر بینچ نے سماعت کی،، چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیاشوکت عزیز صدیقی کے الزامات درست ہیں؟ وکیل حامد خان نے کہا کہ الزامات بالکل درست ہیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے آپ ہمارے سامنے آرٹیکل 184 تین کے تحت آئے ہیں۔ یاد رکھیں کہ اصل دائرہ اختیار کے تحت کیا ہو سکتا ہے، آپ کا کہنا ہے کہ عدالتوں پر دباؤ ڈال کر کسی کو نااہل رکھ کر کسی اور کو وزیراعظم کی کرسی پر بیٹھنا تھا۔ چیف جسٹس نے کہاکہ آپ کے الزامات بہت سنگین نوعیت کے ہیں،کیا ایک شخص کو جیل میں رکھ کر اپنے پسندیدہ شخص کو جتوانا مقصد تھا؟آپ سہولت کاروں کو فریق بنا رہے ہیں لیکن درخواست میں اصل بینیفشری کا ذکر ہی نہیں کیا۔سپریم کورٹ کو کسی کے مقاصد کے حصول کے لیے استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔

وکیل بار کونسل صلاح الدین نے عدالت میں کہا کہ سابق جج نے اپنے تحریری جواب میں جن لوگوں کا نام لیا، ہم ان کو فریق بنا رہے ہیں۔ شوکت عزیز صدیقی نے سابق چیئرمین پی ٹی آئی سمیت کسی کو فائدہ دینے کی بات نہیں کی۔ مفروضے پر ہم کسی کو فائدہ پہنچانے کے لیے کسی کا نام نہیں لے سکتے، چیف جسٹس نے کہا کہ اس کا مطلب ہے کہ شوکت عزیز صدیقی کے الزامات بھی مفروضے ہیں۔جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ نواز شریف اور مریم نواز کو انتخابات سے قبل جیل میں قید رکھنے کے لیے عدلیہ کا کندھا کیوں استعمال ہوا؟ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ سپریم کورٹ کو بطور کندھا استعمال نہیں ہونے دیں گے ،مناسب جواب نہ ملا تو یہ سمجھیں گے آپ ہمیں استعمال کرنا چاہتے ہیں،اس کے علاوہ تو پھر شوکت صدیقی کا کیس صرف پنشن اور مراعات کی حد تک رہ گیا ہے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دئیے کہ شوکت صدیقی کی تقریر کے مطابق انہیں کہا گیاکہ نواز شریف اورمریم نواز جیل سے باہر آئے تو دو سال کی محنت ضائع ہو جائے گی۔ سوال یہ ہے کہ دو سال کی محنت کس کے لیے کی گئی۔

 چیف جسٹس نے کہاکہ شوکت صدیقی 62 سال سے اوپر ہو چکے ہیں، واپس بحال نہیں ہو سکتے۔۔اگر مسئلہ صرف پنشن کا ہے تو سرکار سے پوچھ لیتے ہیں، آپ کو دے دیں گے،اگر پاکستان کی تاریخ درست کرنا چاہتے ہیں تو بتا دیں ہم آپ کی مدد کرنے کو تیار ہیں۔ مقصد صرف پنشن ہے تو ٹھیک ہے وہ مل جائے گی ہم کسی کو بلانے کی زحمت کیوں دیں؟چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ قمر باجوہ سے متعلق گفتگو تو سنی سنائی ہے،قمر باجوہ نے شوکت عزیز صدیقی سے براہ راست کوئی بات نہیں کی تھی۔ جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ کیا چیف جسٹس ہائی کورٹ نے وہ بینچ بنایا تھا جو فیض حمید چاہتے تھے؟ وکیل حامد خان نے کہاکہ جو فیض حمید چاہتے تھے وہی ہوا،فیض حمید چاہتے تھے الیکشن 2018 سے پہلے نوازشریف کی ضمانت نہ ہو۔ جسٹس جمال مندوخیل نے پوچھا کہ نوازشریف کی اپیل پر کیا فیصلہ ہوا؟ ، وکیل نے بتایا کہ اپیلوں پر ابھی فیصلہ ہوا اور نوازشریف بری ہوگئے ہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ دباؤ ڈالنے والے کس طرح کے فیصلے چاہتے تھے کیوں دباؤ ڈال رہے تھے۔ وکیل حامد خان نے کہا کہ ہم نے نام عدالت کے سامنے رکھ دیے ہیں۔ اب یہ عدالت نہ طے کرنا ہے کہ کس کو نوٹس کرنا ہے کس کو نہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ جنرل باجوہ سے تو کڑی نہیں جڑ رہی۔ جنرل قمر جاوید باجوہ پر تو براہ راست الزام ہی نہیں،عرفان رامے بھی اس کیس سے غیر متعلقہ ہیں۔عدالت نے فیض حمید ، سابق چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ انور کاسی،عرفان رامے اور سابق رجسٹرار سپریم کورٹ ارباب عارف کو نوٹس جاری کر دیا۔ عدالت نے درخواستگزار شوکت صدیقی کو سات روز میں ترمیمی درخواست دائر کرنے کی ہدایت کر دی۔عدالت نے کہا کہ تی افراد جنہیں شوکت عزیز صدیقی نے فریقین بنایا تھا، ان کا براہ راست تعلق نہیں۔ قمر جاوید باجوہ، طاہر وفائی، فیصل مروت کو نوٹس جاری نہیں کر رہے ۔۔ کیس کی آئندہ سماعت تعطیلات کے بعد ہوگی۔۔۔

Comments are closed.