سپریم کورٹ نے لانگ مارچ کیخلاف درخواست غیر مؤثر ہونے پر نمٹا دی
لانگ مارچ سیاسی مسئلہ ہے جس کا سیاسی حل ہو سکتا ہے، بظاہر لانگ مارچ کے معاملے میں عدالت کی مداخلت قبل از وقت ہوگی، احتجاج کا حق لامحدود نہیں آئینی حدود سے مشروط ہے، پچیس مئی کوجلسے کیلیےایچ نائن کا گراؤنڈ مختص ہونے کے باوجود ہجوم ڈی چوک چلا آیا،چیف جسٹس عمرعطا بندیال
اسلام آباد : سپریم کورٹ نے لانگ مارچ کیخلاف کامران مرتضی کی درخواست غیر موثر قرار دے دی۔ دوران سماعت چیف جسٹس عمر عطابندیال نے ریمارکس دیئے کہ ایسی صورتحال سے ہر شہری متاثر ہوتا ہے۔ایسا حکم نہیں دینا چاہتے جس پر عمل نہ ہو۔
چیف جسٹس عمر عطابندیال کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے عمران خان کے لانگ مارچ کیخلاف درخواست پر سماعت کی۔ کامران مرتضی نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ لانگ مارچ سے معاملات زندگی متاثر ہو سکتے ہیں۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ یہ ایگزیکٹیو کا معاملہ ہے ان سے ہی رجوع کریں۔ غیر معمولی حالات میں ہی عدلیہ مداخلت کر سکتی ہے۔ جب انتظامیہ کے پاس ایسی صورتحال کنٹرول کرنے کے وسیع اختیارات ہیں تو عدالت مداخلت کیوں کرے؟ چیف جسٹس عمر عطابندیال نے کہا کہ آپ نے درخواست میں ماضی کی خلاف ورزیوں کا ذکر کیا ہے۔ لانگ مارچ سیاسی مسئلہ ہے جس کا سیاسی حل ہو سکتا ہے۔ اس قسم کے مسائل میں مداخلت سے عدالت کے لیے عجیب صورتحال پیدا ہو جاتی ہے ۔جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ آپ ایک سینیٹر ہیں پارلیمنٹ کو مضبوط کریں۔ کامران مرتضی نے کہا کہ میں ذاتی حیثیت میں عدالت آیا ہوں۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ بظاہر لانگ مارچ کے معاملے میں عدالت کی مداخلت قبل از وقت ہو گی۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ آپ چاہ رہے ہیں کہ سپریم کورٹ ڈپٹی کمشنر کا کردار ادا کرے۔ جسٹس عائشہ نے کہا کہ توہین عدالت کا معاملہ لارجر بینچ میں زیر التوا ہے جہاں فریقین نے یقین دہانی کی خلاف ورزی پر جواب دینا ہے۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ لانگ مارچ کا معاملہ تو اسلام آباد ہائیکورٹ میں بھی زیر التوا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ انتظامیہ نے ایچ نائن گراونڈ دینے سے انکار کیا تو سپریم کورٹ نے مداخلت کی۔ ایچ نائن کا گراونڈ مختص ہونے کے باوجود ہجوم ڈی چوک چلا آیا۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ اگر کوئی خلاف ورزی کرتا ہے تو ایگزیکٹیو کے پاس وسیع اختیارات موجود ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کے مطابق تو ایگزیکٹیو کے اختیارات تو 27 کلومیٹر تک محدود ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اگر واضح طور پر آئینی خلاف ورزی کا خطرہ ہو تو عدلیہ مداخلت کرے گی۔ ہو سکتا ہے خلاف ورزیوں پر دوسرے فریق کا اپنا موقف ہو۔ سپریم کورٹ کے حکم کی خلاف ورزی پر عدالت کے لیے معاملہ پیچیدہ ہو جاتا ہے۔ عدالت حکم عملدرآمد کے لیے ہوتے ہیں۔ بعد ازاں عدالت نے لانگ مارچ کیخلاف کامران مرتضی کی درخواست غیر موثر قرار دے دی۔
Comments are closed.