سپریم کورٹ کے پانچ رکنی لارجر بینچ نے صحافیوں کو ہراساں کرنے سے متعلق کیس میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا ازخود نوٹس خارج کردیا، عدالت عظمیٰ نے قرار دیا ہے کہ ازخود نوٹس لینے کا اختیار صرف چیف جسٹس کے پاس ہے۔
سپریم کورٹ آف پاکستان نے ازخود نوٹس لینے کے طریقہ کار اور اختیار کے تعین سے متعلق کیس کا آج محفوظ کیا گیا فیصلہ سنا دیا، قائم مقام چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں پانچ رکنی بینچ نے فیصلے میں قرار دیا ہے کہ ازخود نوٹس لینے کا اختیار صرف چیف جسٹس کے پاس ہے، چیف جسٹس کے علم میں لائے بغیر کوئی ازخود نوٹس نہیں لیا جا سکتا۔
سپریم کورٹ نے ازخود نوٹس کے پیرا میٹرز طے کرتے ہوئے فیصلے میں قرار دیا ہے کہ کوئی بھی بینچ ازخود نوٹس نہیں لے سکتا، تاہم سوموٹو کے لئے معاملہ چیف جسٹس آف پاکستان کو بھجوا سکتا ہے، ازخود نوٹسز کیس وہی بینچ سنیں گے جن کے پاس معاملہ زیرالتوا ہے۔ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ 20 اگست کو دی جانے والی درخواست چیف جسٹس آف پاکستان کے سامنے رکھی جائے۔
قبل ازیں سپریم کورٹ ازخودنوٹس لینے کے طریقہ کار سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران قائمقام چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ صحافیوں کے ساتھ ہونے والی ذیادتی پر کوئی دو رائے نہیں، صحافیوں کی درخواست برقرار ہے اس پر کارروائی بھی ہوگی، عدالت نے قانون اور ضابطے کے تحت کارروائی کرنی ہوتی ہے۔
جسٹس قاضی امین نے کہا صحافی عدالت سے کبھی مایوس ہوکر نہیں جائیں گے، صدر پریس ایسوسی ایشن سپریم کورٹ نے کہا پانچ رکنی لاجر بنچ نے قانونی سوالات اٹھائے ہیں تاہم قانونی نقطے پر صحافی دلائل معاونت نہیں کرسکتے، صحافی عامر میر کے وکیل جہانگیر جدون نے بنچ پر اعتراض کر دیا، جسٹس قاضی امین نے کہا بنچ پر اعتراض جرم نہیں لیکن اس نقطے پر دلائل تو دیں۔
جسٹس منیب اختر بولے سپریم کورٹ کا آفس کھلا تھا درخواست وہاں کیوں نہیں دی؟ وکیل جہانگیر جدون نے کہا تسلیم کرتا ہوں صحافیوں نے درخواست رولز کے مطابق دائر نہیں کی، جن اداروں کو نوٹس ہوا تو وہ درخواست پر اعتراض کر سکتے تھے، قائمقام چیف جسٹس بولے سوموٹو کیسز میں سرکاری ادارے درخواستوں پر اعتراض نہیں کر سکتے، سپریم کورٹ کا ہر بنچ سوموٹو لے سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ سوموٹو پر بنچ بنانا اور تاریخ مقرر کرنا چیف جسٹس کا کام ہے، سپریم کورٹ رولز آئین کے تحت بنے ہوئے ہیں، جسٹس قاضی امین نے کہا صحافیوں کی درخواست میں فریقین کے نام بھی شامل نہیں ایک صحافی نے دستخط 14 دوسرے نے 20 کو کیے۔ جسٹس اعجازالاحسن نے کہا سوال یہ ہے کہ سوموٹو اختیار کے استعمال کا طریقہ کیا ہوگا؟
وائس چیئرمین پاکستان بار نے کہا کہ کسی سائل کو مرضی کے بینچ میں مقدمہ لگانے کی اجازت نہیں تاہم عوام کو عدلیہ سے انصاف کی توقع ہے. تکنیکی نقاط کی وجہ سے انصاف میں رکاوٹ نہیں ہونی چاہیے. نو رکنی بنچ قرار دے چکا عدالت طریقہ کار کی پابند نہیں، عدالت نے فریقین کے دلائل مکمل ہونے کے بعد فیصلہ محفوظ کیا۔
Comments are closed.