لڑکیوں کو نقاب کیساتھ تعلیم کی اجازت، مرد اساتذہ طالبات کو نہیں پڑھا سکیں گے

طالبان نے افغانستان میں یونیورسٹی اور کالجز کی طالبات کو پورے نقاب کے ساتھ تعلیمی سلسلہ جاری رکھنے کی اجازت دے دی، جب کہ مرد اساتذہ کے طالبات کو پڑھانے کو ممنوع قرار دیا گیا ہے۔

طالبان نے نجی کالجر اور یونیورسٹیز کو پیر 6 ستمبر سے کھولنے کی مشروط اجازت دیتے ہوئے حکم جاری کیا ہے کہ یونیورسٹیز میں لڑکے اور لڑکیوں کی علیحدہ کلاسز یا کم از کم انہیں ایک پردے سے الگ کیا جائے۔ جبکہ طالبات کے لیے عبایا اور ایسا نقاب کرنا لازم ہوگا جن سے آنکھوں کے علاوہ ان کا پورا چہرہ چھپ جائے۔

طالبان کی وزارت تعلیم کی جانب سے جاری دستاویزات کے مطابق طالبات کو صرف خواتین ہی پڑھا سکتی ہیں تاہم اگر ایسا ممکن نہ ہو تو پھر اچھے کردار کے حامل کسی بوڑھے شخص کو اس کام کے لیے رکھا جائے۔ یہ حکم نامہ ان تمام نجی کالجز اور جامعات پر لاگو ہوتا ہے جن کی تعداد میں 2001 کے بعد طالبان کا پہلا دور اقتدار ختم ہونے کے بعد بہت تیزی سے اضافہ ہوا اور انہیں دوبارہ کھولنے کی تیاریاں ہو رہی ہیں۔

نئے احکامات میں کالجز اور یونیورسٹیز کی انتظامیہ کو ہدایت کی گئی ہے کہ طالبات کے لیے خواتین اساتذہ کی بھرتی کے ساتھ مرد و خواتین کے لیے آنے اور جانے کے راستے بھی علیحدہ کرنے کی ہدایات دی گئیں ہیں۔ جب کہ خواتین کی چھٹی بھی 5 منٹ قبل کی جائے تاکہ وہ اپنے مرد ہم جماعتوں کے ساتھ باہر نہ مل سکیں۔

طالبان کے حکم نامے کے بارے میں ایک یونیورسٹی پروفیسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ عملی طور پر ایسا کرنا بہت مشکل ہے، لڑکیوں کو الگ سے تعلیم دینےکے لیے خواتین اساتذہ کی تعداد بہت کم ہے۔ تاہم انہوں( طالبان) نے بچیوں اور خواتین کو اسکول جانےکی اجازت دے دی یہ بھی بہت بڑی بات ہے۔

خواتین پر سر کے بال سے پیر کے ناخن تک کو ڈھاپنے والا برقعہ پہننا لازم قرار نہیں دیا گیا تاہم گھر سے باہر نکلنے والی خواتین کے لیے ایسا نقاب کرنا لازم ہوگا جس میں صرف ان کی آنکھیں دکھائی دیں۔ طالبان سے پہلے کابل کی سڑکوں سے برقعہ اور نقاب تقریباً غائب ہو کر چھوٹے شہروں اور قصبوں تک محدود ہوگیا تھا۔

Comments are closed.