پاکستان نے وزیراعظم مودی کے دورہ واشنگٹن کے بعد امریکا اور بھارت کے مشترکہ بیان میں پاکستانی حوالے کو یکطرفہ اور گمراہ کن قرار دیتے ہوئے سفارتی اقدار کے خلاف قرار دیا ہے۔
وزارت خارجہ کی جانب سے جاری ایک بیان کے مطابق ہمیں اس بات پر حیرانی ہے کہ انسداد دہشت گردی پر امریکہ کے ساتھ تعاون کے باوجود اس حوالے کو بیان کا حصہ بنایا گیا۔ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بہت قربانیاں دی ہیں اور ملک کی مسلح افواج اور قانون نافذ کرنے والے اداروں نے اپنی جان دے کر مثال قائم کی جبکہ بین الاقوامی برادری بھی بارہا پاکستان کی کوششوں اور قربانیوں کا اعتراف کر چکی ہے۔
ترجمان دفتر خارجہ ممتاز زہرہ بلوچ کے بیان میں کہا گیا کہ ہم یہ دیکھنے سے قاصر ہیں کہ مشترکہ بیان میں کیے جانے والے دعووں سے دہشت گردی کے خلاف لڑنے کا عالمی عزم کیسے مضبوط ہو گا، اس بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ دہشت گردی کی عفریت کو ہرانے کے لیے جس تعاون کی ضرورت ہے اسے جیو پولیٹیکل ضروریات کی وجہ سے قربان کر دیا گیا ہے۔
دفتر خارجہ نے کہا کہ ریاستی دہشت گردی کی سرپرستی کے علاوہ انڈیا نے اپنے ملک میں اقلیتوں سے ہونے والے سلوک اور کشمیر میں عوام پر جبر سے توجہ ہٹانے کے لیے دہشت گردی کا بہانہ استعمال کیا۔مشترکہ اعلامیہ میں خطے میں عدم استحکام اور تناو پیدا کرنے والے اہم ذرائع کی نشان دہی نہیں کی گئی نہ ہی انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا احطہ کیا گیا جو بین الاقوامی ذمہ داری سے روگردانی کے مترادف ہے۔
پاکستان نے انڈیا کو جدید عسکری ٹیکنالوجی کی منتقلی پر بھی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ایسے اقدامات خطے میں عسکری عدم توازن میں اضافہ کریں گے اور سٹریٹجک استحکام کو متاثر کریں گے۔
Comments are closed.