حکمران اتحاد کا عدالتی کارروائی کا بائیکاٹ کا اعلان
حکمران اتحاد سپریم کورٹ کا فیصلہ مسترد کر دیا۔ مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ ہمارے وکلاء نے عدالت کو قانون کے مطابق مشورہ دیا۔ بینچ نے ٹھنڈے دل سے ہمارے مطالبے پر غور کی بجائے اسے مسترد کر دیا۔انہوں نے اعلان کیا کہ اس بنچ کے سامنے پیش نہیں ہوں گے۔
اسلام آباد : وزیراعظم ہاوس اسلام آباد میں حکومتی اتحایوں نے مشترکہ پریس کانفرنس کی ۔ پی ڈی ایم سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ فل کورٹ کی تشکیل ہمارا متفقہ مطالبہ ہے۔ فل کورٹ کا جو بھی فیصلہ آئے ہمیں منظور ہو گا۔ اگر ادارے حکومت سے تعاون نہ کریں تو سیاسی بحران پیدا ہوگا۔حکومت اداروں کی وحدت کا نام ہے
مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ ہمارا مطالبہ ہے کہ پنجاب سے متعلق کیس فل کورٹ سنے۔ موجودہ بینچ کا فیصلہ جانبدارانہ فیصلہ تصور کیا جائے گا۔ ہمارے وکلاء نے عدالت کو قانون کے مطابق مشورہ دیا۔ بینچ نے ٹھنڈے دل سے ہمارے مطالبے پر غور کی بجائے اسے مسترد کر دیا۔مولانا فضل الرحمن کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کومسترد کرتے ہیں۔ ہم عدلیہ کے اس فیصلے کو مسترد کرتے ہیں۔ اس کیس کے حوالے سے بینچ کے سامنے پیش نہیں ہوں گے۔ اس کیس میں عدالت کا بائیکاٹ کریں گے۔ حکومتی عمل مداخلت برداشت نہیں کر سکتے۔ وزیراعظم کو تجویز دیں گے اس حوالے سے بھی اصلاحات کریں
چیئرمین پیپلزپارٹی و وزیرخارجہ بلاول بھٹو نے کہا کہ ہمارا مطالبہ فل کورٹ کا ہے۔ یہ مطالبہ آئین، جمہوریت اور عدلیہ کے وقار کیلئے کیا تھا، یہ کیس پارلیمان سے متعلق ہے، سپریم کورٹ کو پارلیمان سے متعلق بار بار فیصلے دینے پڑ رہے ہیں، بلاول بھٹو نے کہا کہ ہم سجھتے ہیں عدالت کا بھی فل بینچ بیٹھے اور فیصلہ دے،حکومتی اتحادی جماعتوں نے عدالتی کارروائی کے بائیکاٹ کا فیصلہ کیا ہے
مسلم لیگ ن کے رہنما و سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ اب امتحان سپریم کورٹ کا ہے۔قانون کا تقاضا ہے کہ کسی جج یا بینچ پر انگلی اٹھ جائے تو وہ خود کو وہاں سے ہٹا دے،دنیا بھر میں جہاں قانون کی بالادستی ہو عدالتیں یہی فیصلے کرتی ہیں، ہم نے صرف فل کورٹ کی استدعا کی تھی
لیگی رہنما و وفاقی وزیراحسن اقبال نے کہا کہ سپریم کورٹ کے متنازعہ فیصلہ کے باعث 20 اراکین اسمبلی کے ووٹ نہیں گنے گئے،اس کیس پر نظرثانی کی درخواست اب بھی سپریم کورٹ میں زیر التواء ہے۔ نظرثانی درخواست کا فیصلہ آئے بغیر یہ معاملہ غلط سمت میں جا رہا ہے۔ اگر عمران نیازی کی ہدایت محترم تھی تو چودھری شجاعت حسین کی ہدایت بھی اتنی ہی محترم ہونی چاہیئے۔ یہ کھلا تضاد ہے، احسن اقبال کا کہنا تھا کہ ایک سربراہ کی ہدایت پر 20 اراکین کو نااہل کر دیا جاتا ہے اور دوسرے سربراہ کی ہدایت کو تسلیم نہیں کیا جاتا، نہیں چاہتے کہ سپریم کورٹ پر کسی سیاسی تنازعہ پر لوگ انگلیاں اٹھائیں، عام تاثر ہے کہ عمران خان عدلیہ کے ذریعے اپنا سیاسی ایجنڈا آگے بڑھاتے ہیں۔
Comments are closed.