نیوز بریفنگ کے دوران جب وائٹ ہاؤس کی ڈائریکٹر کمیونی کیشن کیٹ بیڈینگفلڈ سے پوچھا گیا کہ عمران خان نے امریکہ پر الزام لگایا ہے کہ ان کے خلاف لائی جانے والی تحریک عدم اعتماد میں امریکہ اپوزیشن کا ساتھ دے رہا ہے۔اس کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ’ان الزامات میں کوئی سچائی نہیں ہے۔‘
دوسری جانب پاکستان کے دفتر خارجہ نے کہا ہے کہ سفارتی سلامتی کونسل کمیٹی کے اجلاس میں کیے گئے فیصلے کے تحت سفارتی ذرائع سے احتجاجی مراسلہ بھجوایا جائے گا۔رات گئے دفتر خارجہ سے جاری ہونے والے مختصر بیان میں کسی بھی ملک یا اس کے سفیر کی طلبی کا ذکر شامل نہیں ہے۔تاہم سفارتی ذرائع کے مطابق پاکستان نے دھمکی آمیز خط پر امریکی ناظم الامور کو دفتر خارجہ طلب کیا اور احتجاجی مراسلہ ان کے حوالے کیا۔ جس میں قومی سلامتی کمیٹی کی تشویش اور پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت پر پاکستان کا باضابطہ احتجاج درج ہے۔
سفارتی ذرائع کے مطابق دھمکی آمیز خط پر قائم مقام امریکی ڈپٹی چیف آف مشن کو دفتر خارجہ طلب کیا گیا۔ پاکستان نے دھمکی آمیز خط میں امریکی حکام کی جانب سے استعمال کئی گئی زبان پر شدید احتجاج بھی کیا۔ اس سے قبل قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں پاکستان کو دھمکی آمیز خط بھیجنے والے ملک کو بھرپور جوابی ردعمل دینے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔
وزیراعظم عمران خان نے قوم سے اپنے خطاب میں ایک موقع پر امریکہ کا نام لیا تاہم اگلے ہی لمحے انھوں نے کہا کہ ان کا مطلب باہر کا کوئی اور ملک تھا امریکہ نہیں تھا۔دوسری جانب امریکی محکمہ خارجہ کی جانب سے ایک سوال کے جواب میں تمام الزامات کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ تحریک عدم اعتماد میں امریکی مداخلت کے الزمات میں کوئی صداقت نہیں۔ امریکہ کی جانب سے پاکستان کو کوئی دھمکی آمیز خط نہیں بھیجا گیا۔ امریکی حکام پر لگائے گئے تمام الزامات بے بنیاد ہیں۔
Comments are closed.