اقوام متحدہ: اسلام اور خواتین کانفرنس، افغان خواتین پر پابندیاں ناقابل قبول قرار
مغربی ممالک میں مسلم خواتین کےحجاب پرپابندی امتیازی سلوک، اسلاموفوبیا کا مظہر ہے، بلاول بھٹو
نیویارک: پاکستان کے زیرصدارت اقوام متحدہ میں منعقدہ اسلام میں خواتین کے مقام اور حقوق سے متعلق کانفرنس میں افغان خواتین اور لڑکیوں پر عائد پابندیوں کے خلاف بھرپور آواز اٹھائی گئی، پاکستان، امریکا، برطانیہ، آسٹریلیا سمیت دیگر ممالک نے طالبان حکومت سے مطالبہ کیا کہ افغان خواتین و لڑکیوں کے تعلیم سمیت بنیادی حقوق فوری بحال کیے جائیں، پاکستان نے مختلف ممالک میں حجاب پر پابندی کو دقیانوسی اور اسلاموفوبیا کا مظہر قرار دیا۔
اقوام متحدہ ہیڈکوارٹرز نیویارک میں اسلام میں خواتین کا مقام اور اسلامی دنیا میں خواتین کے حقوق اور حیثیت کے موضوع پر منعقدہ کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ اس کانفرنس کے انعقاد کا مقصد اسلام میں خواتین کے حقوق، معاشرے میں کردار اور شناخت کے حوالے سے پائی جانے والی غلط فہمیوں کا تدارک کرنا ہے۔ یہ غلط فہمی اسلامی تاریخ، مسلم ثقافت و اقدار کو بھلانے کی وجہ سے پیدا ہوئی اور اس نائن الیون کے بعد اسلام میں خواتین کا تاثر ایسے انتہا پسندوں کی جانب سے ہائی جیک کر لیا گیا جو کہ ہمارے مذہب کی نمائندگی نہیں کرتے تھے۔
بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ وہ اپنی خصوصی ذمہ داری سمجھتے ہیں کہ ایسی غلط فہمی اور غلط تاثر کے خاتمے میں اپنا کردار ادا کریں، کیونکہ یہ ان کے لئے باعث تکلیف ہے کہ بدقسمتی سے مغربی دنیا اور معاشروں کے خیال میں اسلام کا چہرہ اسامہ بن لادن جیسا ہے ان کے سامنے بینظیر بھٹو کی صورت میں اسلام کا چہرہ کیوں نہیں?اسے سمجھنے کے لیے اسلامی اصولوں، قوانین اور بعض پدرانہ معاشروں کے ذریعے اختیار کیے گئے سماجی طریقوں کے درمیان فرق کیا جائے۔ اسلامو فوبیا اور زینوفوبس کی بنیاد پر امتیازی سلوک درست نہیں کیونکہ امتیازی سلوک ظلم کی پہلی سیڑھی ہے۔
بلاول بھٹو زرداری نے قرآنی آیت کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ قرآن پاک میں موجود ہے کہ “اے لوگو! ہم نے تمہیں ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا ہے، عورتوں اور مردوں کے درمیان اور تمام انسانوں کے درمیان مساوات کا یہ اعلان اسلام کے تبدیلی کے اصولوں میں سے ایک تھا۔ انہوں نے کہا کہ اسلام اپنے قیام کے وقت سے ہی خواتین کو حقوق دینے والا پہلا مذہب ہے۔ اسلام ظلم سے منع کرتا ہے۔ لوگوں کے ساتھ، قوموں کے خلاف، عورتوں کے ساتھ ناانصافی۔ یہ امتیازی سلوک کی بنیاد کے طور پر نسل، رنگ اور جنس سے پرہیز کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسلامی قانون اور روایت – شریعت کے تحت – ایک عورت کی ایک آزاد سماجی اور قانونی شناخت ہے اور اسے شہری، سیاسی، اقتصادی اور ثقافتی حقوق حاصل ہیں۔ ایک عورت وراثت، طلاق، اور بھتہ اور بچے کی تحویل حاصل کر سکتی ہے۔ وہ حقوق جو اسلام نے بہت سے دوسرے مذاہب سے پہلے فراہم کیے ہیں۔
پاکستانی وزیرخارجہ نے کہا کہ یہ میرا مشن ہے کہ پاکستان کی خواتین کو مردوں کے برابر حقوق، انصاف اور مساوات، آزادی اور خوشحالی کے حق کے لیے اس کا مطالبہ پورا ہو، افغانستان کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ پاکستان اور او آئی سی کے دیگر ممالک کے لیے یہ فطری ہے کہ وہ خواتین اور لڑکیوں کے انسانی حقوق، خاص طور پر ان کے تعلیم اور تعلیم کے حق پر عائد پابندیوں پر اپنی شدید مایوسی کا اظہار کریں۔ افغانستان میں یہ پابندیاں اسلامی احکامات کے خلاف ہیں۔ انہوں نے افغان عبوری حکومت سے درخواست کی کہ وہ ان پابندیوں کو واپس لے اور افغانستان کی خواتین کو اس قابل بنائے کہ وہ اپنی قوم کی ترقی میں اپنا بھرپور حصہ ڈالیں۔
بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا کہ غیرمسلم ممالک میں رہنے والی لاکھوں مسلم خواتین کی حالت زار کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، بعض ممالک میں حجاب پر پابندی خواتین کی آزادی سے انکار ہے۔ ہمیں غیر مسلم معاشروں میں مسلم خواتین کے مذہبی اور ثقافتی حقوق سے انکار اور مسلم خواتین کے خلاف منفی دقیانوسی اور امتیازی سلوک کا مقابلہ کرنا چاہیے۔ یہ اسلامو فوبیا کے مظہر ہیں۔ اور نہ ہی ہم تنازعات اور غیر ملکی قبضے کے حالات، جیسے فلسطین اور مقبوضہ جموں و کشمیر میں مسلم خواتین کے مصائب کو فراموش کر سکتے ہیں۔
برطانوی وزیر مملکت برائے جنوبی ایشیا و دولت مشترکہ لارڈ طارق احمد نے کہا کہ برطانیہ کو افغانستان میں خواتین اور لڑکیوں کے حقوق سے متعلق سخت تحفظات ہیں، افغان طالبان کی جانب سے عائد کی جانے والی پابندیاں اسلام کی عکاسی نہیں کرتیں۔ برطانیہ اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر لڑکیوں کی تعلیم کے حوالے سے کام کر رہا ہے۔ افغان خواتین اور مردوں کو سکالرشپ دینے کے راستے کھل رہے ہیں۔
لارڈ طارق احمد نے کہا کہ خواتین کو معاشرے میں کردار ادا کرنے کا موقع دے کر ہی افغان طالبان افغانستان کی پائیدار ترقی ممکن ہے۔ انہوں نے قائد اعظم محمد علی جناح کا قول دہراتے ہوئے کہا کہ کوئی بھی قوم اس وقت ترقی نہیں کر سکتی جب تک وہ خواتین کو مردوں کے برابر حقوق فراہم نہیں کرتی۔
متحدہ عرب امارات نے افغان خواتین اور لڑکیوں کے خلاف تفریق کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ یو اے ای افغان لڑکیوں کے ساتھ مکمل یکجہتی کا اظہار کرتی ہے، انہوں نے خواتین کے حقوق سے متعلق کانفرنس کے انعقاد کو پاکستان کی اس بروقت کاوش قرار دیتے ہوئے خراج تحسین پیش کیا اور اس کانفرنس کے نتائج کی حمایت کی۔
کانفرنس میں شریک امریکہ کی خصوصی نمائندہ برائے افغان خواتین رینا امیری نے کانفرنس کے انقعاد پر پاکستان کا شکریہ ادا کیا اور افغانستان میں خواتین اور لڑکیوں کے کام کرنے، تعلیم اور بغیر محرم بازار جانے پر پابندیوں پر تشویش کا اظہار کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ طالبان اپنے نظریات افغان عوام پر تھوپنے کی کوشش کر رہے ہیں، طالبان کے اقدامات افغانستان کی تاریخ، ثقافت کے منافی ہے، تمام مسلم ممالک سے اپیل ہے کہ وہ افغان خواتین اور لڑکیوں کے ساتھ کھڑے ہیں۔امریکی حکومت کا ماننا ہے کہ پاکستان، یو اے ای، او آئی سی ممالک کی جانب سے افغان طالبان کے اقدامات کی مذمت احسن اقدام ہے۔
امریکی خصوصی نمائندہ نے کہا کہ ہم جانتے ہیں افغانستان میں جو ہوتا ہے وہ صرف افغانستان کی حد تک محدود نہیں رہتا۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ افغان طالبان کے بیانیے کو مسترد کیا جائے۔ معاشرے سے خواتین کے کردار کو ختم کرنا تباہ کن ثابت ہوتا ہے۔ کانفرنس میں آسٹریلیا، اومان، ترکی، کرغزستان، کویت، سوڈان، فلپائن، سمیت40 سے زائد ممالک کے سفارت کاروں اور حکومتی نمائندوں نے شرکت کی۔
Comments are closed.