ہندتوا بھارت سفاک اسرائیل کو مہلک ہتھیار فراہم کرکے اہل فلسطین کی نسل کشی میں براہ راست مدد اور حوصلہ افزائی کر رہا ہے۔فسطائی مودی کی قیادت میں بھارت فلسطینی عوام کے خلاف نسل کشی کی مہم میں اسرائیل کی کھل کر حمایت کر رہا ہے۔ بھارت غزہ کے نہتے عوام کے خلاف استعمال ہونے کیلئے 27 ٹن دھماکہ خیز مواد اسرائیل پہنچا رہا ہے۔اس سے قبل بھی بھارت نے غزہ پر اسرائیلی ا فواج کے جاری حملوں میں مدد کیلئے900 مہلک ڈرون تل ابیب بھیجے ہیں۔غزہ میں اسرائیل کی جاری نسل کشی کے درمیان سوشل میڈیا پر ہندوتوا اکاونٹس منظر عام پر آئے ہیں جو فلسطین مخالف اور اسلامو فوبک غلط معلومات کو بڑھاوا دینے کیلئے قائم کیے گئے ہیں۔ہندوتوا دائیں بازو کے اکاونٹس07 اکتوبر 2023 سے اسرائیل کیلئے بڑے پیمانے پر آن لائن حمایت کا اظہار کر رہے ہیں۔بھارت میں ہندوتوا غنڈوں نے نہتے فلسطینی عوام کے خلاف صیہونی حکومت کے ہولناک جرائم کی حمایت میں ریلیوں کا بھی انعقاد کیا ہے۔ آر ایس ایس کی حمایت یافتہ مودی حکومت میں بھارت اور اسرائیل کے تعلقات میں شدت آئی ہے۔ ہندوتوا نریندر امودی 7 اکتوبر 2023 میں اسرائیل کی حمایت کا اظہار کرنے والے اولین رہنماوں میں سے ایک تھے۔اسرائیل پاکستان کیساتھ اپنے ماضی کے تنازعات میں بھی مارٹر، گولہ بارود اور جدید لیزر گائیڈڈ میزائل فراہم کرکے بھارت کی حمایت کرچکا ہے۔بھارت اسرائیلی ساختہ اسلحے کا سب سے بڑا خریدار ہے جو سالانہ ایک بلین ڈالر سے زیادہ اسلحہ اسرائیل سے خریدتا ہے۔ساوورکر سے لیکر گولوالکر تک ہندوتوا نظریات رکھنے والے صیہونیت کے حامی رہے ہیں۔ہندوتوا اور صیہونیت کا حامی نقطہ نظر، اہداف اور طریقوں میں مضبوط تعلق اور آپس میں گڑھ جوڑ ہے۔ہندوتوا صیہونیت اتحاد کی بنیاد اسلام اور مسلمانوں کی دشمنی پر مبنی ہے۔
ہندوتوا بھارت اور صیہونی اسرائیل، دونوں کشمیری اور فلسطینی مسلمانوں کے خلاف نسل پرستی کے جرائم کا ارتکاب کر رہے ہیں۔ قابض بھارت اور صہیونی اسرائیل مقبوضہ جموں و کشمیر اور فلسطین میں عالمی قوانین کی کھلم کھلا خلاف ورزی کر رہے ہیں۔ بھارت اور اسرائیل کو انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں ملوث دنیا کے 2 سب سے زیادہ بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ ممالک سمجھاجاتا ہے۔بھارت مقبوضہ جموں و کشمیرمیں اپنے آباد کار نوآبادیاتی ایجنڈے کو آگے بڑھانے کیلئے اسرائیلی ماڈل پر عمل پیرا ہے۔کشمیری عوام کی زمینوں اور جائیدادواملاک پر قبضہ کرنے اور ان کا معاشی طور پر گلا گھونٹنے کی فسطائی مودی کی پالیسی مقبوضہ فلسطین میں صہیونی اسرائیل کی ہو بہو نقل ہے۔ مقبوضہ جموں و کشمیر اور فلسطین کے عوام گزشتہ ساڑھے7 دہائیوں سے اپنی منصفانہ آزادی کے مقصد کے حصول کیلئے تاریخ کی لازوال جدوجہد کر رہے ہیں۔کشمیری اور فلسطینی عوام اقوام متحدہ کے تسلیم شدہ حق خودارادیت کا مطالبہ کر رہے ہیں۔جس کا وعدہ پوری دنیا کو گواہ ٹھرا کر ان کیساتھ کیا جاچکا ہے ۔
یہ بات اب کسی شک وشبہ سے بالاتر ہے کہ مظلوم فلسطینی عوام کی نسل کشی میں بھارت بھی اسرائیل کا شراکت داربن چکا ہے۔جس کا ثبوت یہ ہے کہ بھارتی کارگو جہاز گولہ بارود لیکر چنئی کے راستے اسرائیل کی جانب رواں دواں ہے، اسلحہ کی کھیپ میں رفح میں معصوم فلسطینیوں پرصہیونی بمباری میں استعمال ہونے والا گولہ باروداوردیگر ہتھیار شامل ہیں۔بھارتی گولہ بارودکااستعمال رفح کے کھلے آسمان تلے موجود فلسطینیوں کے خلاف ہو گا۔اس سے قبل رواں برس 17 مئی کو اسپین نے بھارتی جہاز کو اپنے ہاں لنگر انداز ہونے سے روکنے کا جواز پیش کرتے ہوئے جواب دیا کہ وہ معصوم فلسطینی عوام کے قتل عام میں شریک نہیں ہوں گے، یہ اقدام بھارت کیلئے یقینا شرمندگی کا باعث ہے۔بھارت اسرائیل سے تین ارب ڈالرکا اسلحہ خریدچکا ہے جوپاکستان اورچین کے خلاف استعمال ہوا۔ایک طرف جہاں غزہ ،رفح ،خان یونس اور دوسرے فلسطینی علاقوں میں اسرائیلی قتل عام جاری ہے۔07اکتوبر2023 سے اب تک 37000 فلسطینی شہید اور 87000 سے زائد زخمی ہوچکے ہیں،جبکہ دس ہزار کے لگ بھگ فلسطینی اسرائیلی بمباری میں تباہ شدہ عمارتوں کے ملبے تلے دب چکے ہیں اور انہیں بھی شہدا میں شمار کیا جاتا ہے۔جس کے بعد فلسطینی شہدا کی تعداد 47000 سے تجاوز کرچکی ہے۔شہدا میں 70 فیصد خواتین ا ور معصوم بچے شامل ہیں،جو سیدھی سیدھی نسل کشی ہے ۔جبالیہ پناہ گزین کیمپ مکمل تباہ ہوچکا ہے، غزہ میں اس وقت کوئی اسپتال فعال نہیں ہے، دوائیں اورطبی سامان نہ ہونے کی وجہ سے اماراتی اسپتال بھی بندکیا گیا ہے۔دنیابھرمیں اسرائیل پردبا وبڑھتا جارہاہے۔عالمی عدالت انصاف جنوبی افریقہ کی درخواست پر اسرائیل کو رفح آپریشن فوری طور پرختم اور اقوام متحدہ کے ماہرین کو غزہ اور دوسرے تباہ شدہ علاقوں میں تحقیقات میں تعاون کرنے کا حکم دے چکی ہے تاکہ اس بات کا تعین کیا جائے کہ اسرائیل نسل کشی میں ملوث ہے۔گوکہ اسرائیل امریکہ،برطانیہ ،جرمنی اور دوسرے سرکش ممالک کی آشرواد سے عالمی عدالت انصاف کے احکامات کو ماننے سے انکاری اور عدالتی فیصلے کے دوسرے ہی روز رفح پر ایک خیمہ بستی میں مقیم نو سو ٹن وزنی امریکی ساختہ بارودی مواد گرا کر 300 سو سے زائد فلسطینی بچوں،خواتین،نوجوانوں اور برزگوں کا خون بہایا ہے۔ اسرائیلی بربریت نے پوری دنیا میں ایک ایسی احتجاجی مہم کو جنم دیا ہے جو تھمنے کا نام نہیں لے رہی ہے۔امریکی تعلیمی اداروں میں احتجا ج نے پوری دنیا کو اپنی جانب متوجہ کیا اور دیکھتے ہی دیکھتے اس احتجاج نے اسٹریلیا،نیوز لینڈ،فرانس،جرمنی،کینیڈا اور دوسرے ممالک کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا۔تین پورپی ممالک اسپین،ڈنمارک اور ائیر لینڈ نے فلسطینی ریاست کو باضابطہ طور پر تسلیم بھی کیا اور اس سلسلے میں اسرائیل کی تمام حرکتوں کو یکسر نظرانداز کرکے اپنے ہاں نہ صرف فلسطینی پرچم کو اپنے پرچموں کیساتھ سرکاری سطح پر لہرایا بلکہ القدس الشریف کو فلسطین کا دارالحکومت بھی تسلیم کیا۔اسرائیلی اور ان کے وفود پوری دنیا میں منہ چھپاتے پھررہے ہیں۔جس کی عملی تصویر عالمی عدالت انصاف میں جب سامنے آئی تو دینا یہ دیکھ کر دنگ رہ گئی کہ اسرائیلی وفد تنہا اور اکیلے کھڑا تھا جبکہ جنوبی افریقی وفد کے پیچھے پوری عدالت اور اس میں موجود لوگ کھڑے تھے،جس نے دنیا کو یہ سوچنے پر مجبور کیا کہ بھلے ہی طاقت کی بنیاد پر مظلوم کا خون بہایا جائے لیکن انصاف پسندا ور مہذب لوگ اس بربریت کو حقارت کی نظروں سے دیکھتے ہیں۔اب تو وہ ممالک بھی اہل فلسطین کیساتھ کھڑے اور اسرائیلی نسل کشی کی مذمت کرنے سے ذرا نہیں ہچکچاتے ہیں جو کل تک اسرائیل کی حمایت کوناگزیر سمجھتے تھے۔
ایسے میں مودی کا بھارت اسرائیل کی حمایت میں پیش پیش ہے بلکہ معصوم اہل فلسطین کا مزید خون بہانے کیلئے یکے بعد دیگرے ہتھیاروں کے جہاز اسرائیل بھیجنے میں کوئی شرم محسوس نہیں کرتا ہے۔چونکہ اسرائیل اور بھارت دونوں غاصب اور جارح قوتیں ہیں۔دونوں کے اہداف میں مماثلت پائی جاتی ہے۔اگر بھارت مقبوضہ جموں وکشمیر کی سرزمین پر قابض ہے تو اسرائیل نے بھی فلسطین کی سرزمین پر نہ صرف ناجائز قبضہ کیا ہے بلکہ وہ1936سے اہل فلسطین کا قتل عام جاری رکھے ہوئے ہے۔ اہل کشمیر جہاں مقبوضہ جموں وکشمیر پر بھارت کے غیر قانونی اور غاصبانہ قبضے کے خاتمے کیلئے برسر پیکار ہیں اور اب تک سوا پانچ لاکھ جانوں کا نذرانہ بھی پیش کرچکے ہیںجبکہ آج بھی قربانیوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ جاری ہے ۔وہیں صہیونی اسرائیل بھی اہل فلسطین کا قتل عام جاری رکھے ہے۔بھارت اور اسرائیل دو ایسی ریاستیں ہیں جو عالمی قوانیں ،اصولوں اور ضابطہ اخلاق کی دھجیاں اڑا رہی ہیں اور بظاہر دنیا کے تمام ادارے اور قوانین ان دونوں بدمعاش ریاستوں کے سامنے بے بس دکھائی دے رہے ہیں۔گو کہ اقوام متحدہ اور اس کی سلامتی کونسل کے سربراہاں دبے نہیں بلکہ کھلے الفاظ میں دونوں کشمیری اور فلسطینی اقوام کو ان کے حقوق یعنی حق خودارادیت دینے کی وکلالت بھی کرتے ہیں مگر کچھ کرنے سے قاصر بھی ہیں کیونکہ ان دونوں بدمعاش ریاستوں کے پیچھے امریکہ اور اس کا ویٹو پاور کھڑا ہے لیکن بکرے کی مان کب تک خیر منائے گی کے مصداق ان دونوں عالمی بدمعاشوں کو نہ صرف کشمیری اور فلسطینی عوام کی نسل کشی اور قتل و غارت کا حساب دینا پڑے گا بلکہ انصاف کے کٹہرے میں کھڑا ہونا پڑے گا۔ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کی بصیرت کو سلام جو اسرائیل کو امریکہ کی ناجائز اولاد قرار دے چکے ہیں۔
آج پوری دنیا اس بات کو تسلیم کرتی ہے کہ اسرائیل امریکہ کا بگڑا ہو ا ناجائز بچہ ہے جس سے نہتے فلسطینیوں کا خون بہانے کی لت پڑچکی ہے۔بھارت بھی مقبوضہ جموں و کشمیر میں اسرائیل کی اسی پالیسی کو نافذ کرنے میں سرعت کیساتھ کوشیشں جاری رکھے ہوئے ہے جس کے تحت فلسطینی عوام کو اپنی ہی سرزمین سے بے دخل کرکے وہاں پوری دنیا سے لائے گئے یہودیوں کو بسایا گیا ،بعینہ ہی 05اگست2019 میں غیر قانونی بھارتی اقدامات کا مقصد بھی مسلم اکثریتی مقبوضہ جموں وکشمیر کو ہندو اقلیت میں تبدیل کرکے یہاں بھارت سے ہندئووں کو لاکر بسانا ہے۔جس کا ثبوت یہ ہے کہ کشمیری عوام کی جائیداد و املاک اور رہائشی مکانات پر قبضہ کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔مسلمان کشمیری ملازمین کو نوکریوں سے برخاست کرکے انہیں اپنی صفائی بھی پیش کرنے کے حق سے محروم کیا جاچکا ہے۔اب تو فائیو سٹار ہوٹل تعمیر کرنے کی غرض سے اراضی کی نشاندہی کیلئے کمیٹیوں کا قیام بھی عمل میں لایا جاچکا ہے۔ان حالات میں ایک چھوٹا بچہ بھی یہ سمجھ سکتا ہے کہ مودی اور اس کے حواری کسقدر خوفناک اور مکروہ عزائم لیکر ہندتوا ایجنڈا آگے بڑھارہے ہیں۔بھارت کا مکروہ چہرہ پہلے ہی بے نقاب ہوچکا ہے مگر اسرائیل اور ایران کی حمایت یافتہ حماس کے درمیان بڑھتے ہوئے تنازعے میں اسرائیل کو جنگی سازوسامان کے اسٹریٹجک سپلائر کے طور پر بھارت کا کردار موضوع بحث ہے اور ہتھیاروں کی سفارتکاری نے مشرق وسطی میں خاص طور پر اسرائیل کے دشمن ایران کے ساتھ چابہار کی اسٹریٹجک بندرگاہ کو چلانے کیلئے حالیہ معاہدے کے بعد بھارت کے کردار پر سوالات کھڑے کردیے ہیں۔اور بلاشبہ ایران کو اس سلسلے میں بھارت سے باز پرس کرنی چاہیے۔بھارت اور اسرائیل یاد رکھیں کہ وہ بھلے ہی کشمیری اور فلسطینی عوام کا خون بہانے میں ایک دوسرے کے مددگار ہیں لیکن ان دونوں کو بھی اس وقت تک سکھ اور چین نصیب نہیں ہوگا جب تک یہ کشمیر ی اور فلسطینی عوام کو ان کا تسلیم شد حق خودارادیت واگزار نہیں کرتے ،جس کے حصول کیلئے یہ دونوں قربانیوں کی لازوال اور عظیم تاریخ رقم کررہے ہیں۔یہ قربانیاں بھارت اور اسرائیل کے خاتمے کا باعث بنیں گی۔برہمن سامراج بھارت اور صہیونی اسرائیل کے درمیان قریبی فوجی تعاون انسانیت اور عالمی امن کیلئے خطرہ ہے ۔جس کا اگر بروقت تدارک نہ کیا گیا تو تیسری عالمی جنگ کو روکا جانا ممکن نہیں ہوگا۔
Comments are closed.