دوحا: سال 2001 میں نیویارک کے ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر حملے (نائن الیون) کے بعد افغانستان میں شروع ہونے والی جنگ کے خاتمے کے لیے تقریباً دو دہائیوں بعد امریکا اور طالبان کے درمیان تاریخی معاہدے پر دستخط ہوگئے۔
قطر کے دارالحکومت دوحا میں امریکا اور طالبان کے درمیان مقامی ہوٹل میں افغان امن معاہدے پردستخط کی تقریب ہوئی، طالبان کی جانب سے ملا عبدالغنی برادر اور امریکا کی جانب سے نمائندہ خصوصی برائے افغان مفاہمتی عمل زلمے خلیل زاد نے معاہدے پر دستخط کیے۔
افغانستان میں قیام امن کے لیے امریکا اور طالبان کے درمیان طے پانے والے معاہدے کے مطابق افغانستان میں القاعدہ اور داعش پر مکمل پابندی ہوگی، طالبان کی جانب سے افغانستان کی سرزمین کسی بھی ملک کے خلاف استعمال نہ ہونے کی ضمانت دی جائے گی۔جب کہ امریکی افواج 14 ماہ میں بتدریج افغانستان سے مکمل انخلا کرے گی۔
اس موقع پر قطری وزیرخارجہ نے کہا ہے کہ قطر سمجھتا ہے کہ افغانستان میں امن کے لیے سازگار ماحول فراہم کرنا فریقین سمیت عالمی برداری کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔ قطری حکومت نے معاہدے کو کامیاب بنانے کے لیے کردارادا کیاجس سے افغانستان میں 19 سالہ جنگ کا خاتمہ اور پائیدار امن کی راہ ہموار ہوگی۔ معاہدے کو حتمی شکل دینے پر تمام فریقین کا کردار قابل تعریف ہے۔
معاہدے پر دستخط کی تقریب میں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے پاکستان کی نمائندگی کی،اس کے علاوہ 50 ممالک کے نمائندوں نے شرکت کی جب کہ معاہدے پر دستخط کے پیِشِ نظر طالبان کا 31 رکنی وفد بھی قطر کے دارالحکومت میں رہا۔
دلچسپ بات یہ کہ طالبان کی قید میں 3 سال رہنے والے آسٹریلین یونیورسٹی کے پروفیسر ٹموتھی ویکس بھی معاہدے کی تقریب میں شرکت کے لیے دوحا میں موجود تھے۔ مذکورہ معاہدے کے نتیجے میں کابل حکومت اور طالبان میں بات چیت ہونے کی توقع ہے جو اگر کامیاب ہوئے تو افغان جنگ بالآخر اختتام پذیر ہوجائے گی۔
تاہم اس حوالے سے افغان حکومت کی حیثیت اب تک غیر واضح ہے جسے امریکا اور طالبان کے درمیان ہونے والے براہِ راست مذاکرات سے الگ رکھا گیا تھا جب کہ ملک میں صدارتی انتخاب کے نتائج آنے کے بعد سیاسی بحران بھی جنم لے چکا ہے۔
خیال رہے کہ امریکا کے 12 سے 13 ہزار فوجی اس وقت افغانستان میں موجود ہیں جس میں معاہدے کے چند ماہ کے عرصے میں کمی کر کے 8 ہزار 600 کردی جائے گی جبکہ مزیدکمی طالبان کی افغان حکومت سے روابط پر منحصر ہے جنہیں وہ کٹھ پتلی حکومت کہتے ہیں۔
یہاں یہ واضح رہے کہ امریکا اور طالبان کے درمیان افغانستان میں جنگ کے خاتمے اور امریکی افواج کے انخلا کے لیے بات چیت کا سلسلہ تقریباً ڈیڑھ برس سے جاری تھا،جس میں طالبان کے حملے میں امریکی فوجیوں کی ہلاکت کے باعث گزشتہ برس ستمبر میں تعطل آیا تھا تاہم مذاکرات دسمبر میں بحال ہوگئے تھے۔
افغان حکومت کے ذرائع نے بتایا کہ دوحہ میں طالبان سے معاہدہ ہوجانے کے بعد امریکا کابل میں افغان حکومت کے ساتھ ایک علیحدہ تقریب منعقد کرے گا۔ یہ بات مدِ نظر رہے کہ معاہدے پر دستخط سے قبل ایک ہفتے تک دونوں فریقین نے باہمی اعتماد سازی سے تشدد میں کمی کے سمجھوتے پر عمل کیا تھا۔
Comments are closed.