پی آئی اے کا مالی بوجھ کم کرنے کی کوشش، رضاکارانہ ریٹائرمنٹ سکیم متعارف

پی آئی اے انتظامیہ نے ادارے کا مالی بوجھ کم کرنے کے لئے ملازمین  کیلئے رضا کارانہ ریٹائرمنٹ سکیم متعارف کروا دی، چیف ایگزیکٹو آفیسر ارشد ملک کا کہنا ہے ساڑھے14ہزار ملازمین 4 سو ارب کا خسارہ اور100ارب کی لائبلٹیز کیساتھ دنیا کی کوئی ایئر لائن کھڑی نہیں ہوسکتی، ایسی حکمت عملی بنائی ہے جس سے قومی ایئر لائن کا شمار دو سال میں دنیا کی بہترین ایئرلائن میں ہوگا۔رضاکارانہ سکیم سے 3200 ملازمین کیلئے 12.87 ارب روپے کا خرچ آئے گا اور سالانہ تنخواہوں پر 4.2 ارب روپے کا فرق پڑے گا۔

سینیٹ کی قائمہ کمیٹی ایوی ایشن کے اجلاس میں بریفنگ دیتے ہوئے پی آئی اے کے چیف ایگزیکٹو آفیسر ارشد ملک نے کہا کہ پی آئی اے کے اضافی ملازمین کیلئے رضاکارانہ علیحدگی سکیم متعارف کرائی گئی ہے سکیم کے تحت ملازمین رضاکارانہ طور پر اس سے فائدہ حاصل کر سکتے ہیں۔

کمیٹی کو بتایا گیا کہ پی آئی اے ساڑھے 14 ہزار ملازمین ہیں۔ قطر ایئر لائن کے 240 جہاز، 32 ہزار ملازمین اور فی اوسط جہاز 133 ملازمین بنتے ہیں۔ ایمریٹس269 جہاز، 62 ہزار ملازمین فی اوسط جہاز231 ملازمین، ترکش ایئر لائن 329 جہاز، 31 ہزار ملازمین اور فی اوسط جہاز94 ملازمین، اتحاد ایئرلائن 102 جہاز، 21530 ملازمین، فی اوسط جہاز211 بنتے ہیں۔

 جبکہ پاکستان کی قومی ایئر لائن میں 29 جہاز،14500 ملازمین اور فی اوسط جہازملازمین500 بنتے ہیں جو ادارے کی خسارے کی بڑی وجہ ہیں اگر بیلنس شیٹ سے500 ارب کے قرضہ جات نکال دیئے جائیں توفرق سامنے آ سکتا ہے،سی ای او پی آئی اے نے کہا کہ قومی ایئرلائن کو400ارب کا خسارہ جبکہ ایئر لائن کے ذمہ 100ارب سے زائد کی لائبلٹی واجب الادا ہیں اتنے بڑی خسارے کے ساتھ دنیا کی کوئی ایئر لائن کھڑی نہیں ہو سکتی۔

کمیٹی کو بتایا کہ رضاکارانہ سکیم سے 3200 ملازمین کیلئے 12 ارب87کروڑ روپے کا خرچ آئے گا اور سالانہ تنخواہوں پر 4ارب20کروڑ روپے کا فرق پڑے گا۔سینیٹر نعمان وزیر خٹک نے کہا کہ گزشتہ دو برس سے کہہ رہا ہوں کہ کمیٹی کو ایک موازنہ رپورٹ پیش کی جائے کہ وہ کمپنیاں جو منافع میں جارہی ہیں ان کی ویلیو چین انیلیسزرپورٹ پیش کی جائے۔

قائمہ کمیٹی کو بتایا گیا کہ ادارے کے خسارے کو کم کرنے کیلئے اقدامات اٹھائے جارہے ہیں۔ ادارے کا آڈٹ مکمل ہوگیا ہے۔97 فیصد کمپلائنس رپورٹ آ گئی ہے۔ ایس ایم ایس نہیں تھا وہ بھی بن گیا ہے۔ آیوسا کمپنی کے پا س جا رہے ہیں۔ لائسنس والے ایشو بھی جلد حل جائیں گے۔جس پر چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ بہتر یہی ہے کہ ان کمپنیوں کے نمائندوں کو یہاں شامل کر کے ایس او پیز تیار کیے جائیں اور ایسا طریقہ کار بنایا جائے کہ مشکوک لائسنسوں کو چیک کر کے حل کیا جائے۔

Comments are closed.