پندرہ نومبر کو گلگت بلتستان کی 23 نشستوں پر عام انتخابات ہو رہے ہیں جب کہ ایک نشست پر پولنگ 22 نومبر کو ہو گی۔ گلگت بلتستان میں حکومت بنانے کیلئے وفاق کی تین سیاسی جماعتیں سر توڑ کوششیں کر رہی ہیں۔ وفاق میں حکومتی جماعت کو اپنی مقبولیت کھونے کا اندیشہ ہے۔
تحریک انصاف سمجھتی ہے کہ اگر وہ گلگت بلتستان انتخابات میں کامیاب نہ ہوئی تو یہ کھلے عام عدم اعتماد ثابت ہو گا جبکہ پیپلز پارٹی وہاں تجدید نو کی جنگ لڑ رہی ہے۔فی الحال مقابلہ انہی دو جماعتوں کے درمیان ہے گو کہ مسلم لیگ ن نے ترقیاتی کام کروائے (جن کا ذکر قراقرم یونیورسٹی میں انتخابی مباحثے کے دوران پیپلز پارٹی گلگت بلتستان کے صدر امجد حسین نے بھی کیا) لیکن نون اس وقت کوئی بڑا اپ سیٹ کرنے کی پوزیشن میں نہیں۔
گلگت بلتستان کی انتخابی مہم میں بڑی سیاسی جماعتوں کے کئی رہنما اور وفاقی وزرا نے وہاں کا دورہ کیا ، سردی اور کورونا کے باوجود وہاں سیاسی گہما گہمی عروج پر رہی ، لوگوں نے تمام جماعتوں کے جلسوں میں بڑی بھرپور شرکت کی۔
ن لیگ کی حکومت ابھی ختم ہوئی ہے اور پی ٹی آئی والے وعدے کر رہے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان یکم نومبر کو گلگت بلتستان عبوری صوبے کا اعلان کر آئے، مرکز میں حکومت ہونے کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے وفاقی وزرا کہتے ہیں جتنے ووٹ دو گے اتنے نئے اضلاع اور فنڈز دیں گے۔
پیپلز پارٹی بھی وعدے کر رہی ہے ،بلاول بھٹو مکمل صوبے کی حمایت کر رہے ہیں۔ تاہم گلگت بلتستان میں سیاسی بنیادیں پیپلز پارٹی کی مضبوط ہیں۔اس کی وجہ ذوالفقار علی بھٹو نے وہاں سے ایف سی آر کا خاتمہ کیا، بینظیر نے عدالتی اصلاحات لائیں ، آصف علی زرداری نے صدارتی حکم نامے کے تحت ایک سیٹ اپ دیا تھا۔
یوں ایک تاریخی تسلسل ہے جس وجہ سے پیپلز پارٹی گلگت بلتستان کی مقبول ترین سیاسی جماعت ہے اور حالیہ انتخابی مہم کے دوران دوسرے رہنماوں کی نسبت بلاول بھٹو زرداری سب سے زیادہ گلگت بلتستان میں رہے اور یونین کونسل لیول تک انتخابی مہم چلاتے رہے ہیں ۔
مسلم لیگ نون کہیں اپنی کارکردگی بتاتی رہی اور کہیں وعدے کئے اور مریم نواز بھی صوبے کا اعلان کرتی رہی ہیں لیکن ان کے ساتھ بدقسمتی یہ ہے کہ حفیظ الرحمن کی کابینہ کے چار وزرا اس وقت تحریک انصاف کے ٹکٹ سے اور ایک آزاد امیدوار کی حیثیت سے انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں اور گلگت بلتستان میں مسلم لیگ نون کی بنیادیں نہ ہونے کے برابر ہیں۔
اس وجہ سے مسلم لیگ نون کو پذیرائی حاصل نہیں ہورہی۔ اس کے ساتھ گزشتہ دو انتخابات میں جیتنے والے آزاد امیدوار نواز خان ناجی کو پہلی مرتبہ سخت مقابلے کا سامنا ہے۔ گلگت بلتستان کے انتخابات میں ایک اہم چیزجو دیکھنے کو ملی وہ پیپلز پارٹی کی قیادت حتیٰ کے چئیرمین بلاول بھٹو تک عوام میں گھل مل رہے ہیں ، عوام سے بات چیت ہو رہی ہے۔ بلاول نے مقامی صحافیوں کو بھی انٹرویوز دئیے لیکن حکومتی جماعت کے لوگ پروٹوکول کے قائل نظر آ رہے ہیں اور وہ جلسوں میں تقاریر تک محدود ہیں۔
مندرجہ بالا پس منظر کو بنیاد بنا کر دیکھا جائے تو پیپلز پارٹی کو کامیابی حاصل ہونی چاہیے لیکن ایسا ممکن نظر نہیں آ رہا کیونکہ اس خطے میں ووٹ پر مسلکی اثرات بھی نظر آتے ہیں اور کئی علاقوں میں ٹکٹوں کی تقسیم اور کئی آزاد امیدوار اس طرح سامنے آئے ہیں کہ پیپلز پارٹی کے امیدواروں کیلئے مشکلات کا سبب بن رہے ہیں، اس طرح تحریک انصاف کا گراف اوپر نظر آتا ہے۔ اس کے ساتھ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے انتخابات میں مرکز میں موجود حکومتی جماعت کا اثر واضح نظر آتا ہے اور وفاقی وزرا کا اہم کردار ہوتا ہے ۔
اس وقت حلقوں کی صورتحال پر نظر دوڑائی جائے اور امیدواروں کا موازنہ کیا جائے تو 23 حلقوں میں 320 امیدوار مد مقابل ہیں ۔ان امیدواروں کا ووٹ بنک اور مسلکی پس منظر کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف 9 سے 11 نشستیں لینے میں کامیاب ہو سکتی ہے، پیپلز پارٹی 4 سے6 حلقوں میں کامیاب ہوگی ،مسلم لیگ ن 3 سے 4 نشستوں پر کامیاب ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔
اسی طرح مذہبی جماعتیں بھی 3 نشستوں پر مضبوط دکھائی دے رہی ہے اور دو سے تین آزاد امیدوار میدان مار سکتے ہیں۔اس ساری صورتحال میں تحریک انصاف مذہبی جماعتوں اور آزاد امیدواروں کو ملا کر حکومت بنانے کی پوزیشن میں آ جائے گئی تاہم پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کے کل ووٹوں میں زیادہ فرق نظر نہیں آئے گا۔
اس سب کے باجوداگر پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون میں سیٹ ایڈجسٹمنٹ ہوتی ہے تو نتائج اس تجزیے کے برعکس ہوسکتے ہیں گے،کیونکہ مسلم لیگ نون اور پیپلزپارٹی کا ووٹ بینک ہر حلقے میں موجود ہے اور دونوں جماعتوں کا ووٹ ملکر تحریک انصاف کی کسی بھی نشست کا نتیجہ انکے حق میں تبدیل کر سکتاہے۔
Comments are closed.