چھوٹے،درمیانے کاروبارمنصوبہ بندی کمیشن کو ضروریات سے آگاہ کریں، عابد قیوم
کورونا وبا کے دوران صنعتوں اور کاروباروں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا،درست اعدادوشمار کی ضرورت ہے، ماہرین کاظہار خیال
اسلام آباد: وزیراعظم کی اقتصادی مشاورتی کونسل کے رکن ڈاکٹر عابد قیوم سلہری نے کہا ہے کہ منصوبہ بندی کمیشن کورونا وبا کے دوران نجی شعبے کو درپیش مشکلات کا درست جائزہ لینے کی کوشش کر رہا ہے۔ اسی طرح ملک کے چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباروں کو بحالی کے لیے درکار معاونت کا تعین بھی کیا جا رہا ہے۔
وزیراعظم کی اقتصادی مشاورتی کونسل کے رکن ڈاکٹر عابد قیوم سلہری نے ’صنعتوں و کاروبار کو درپیش چیلینجز‘ کے زیرعنوان منصوبہ بندی کمیشن کے گروپ مشاورتی اجلاس میں شرکت کی، اجلاس کا انعقاد پالیسی ادارہ برائے پائیدار ترقی (ایس ڈی پی آئی) اور منصوبہ بندی کمیشن کے اشتراک عمل سے کیا گیا۔
ڈاکٹر عابد قیوم سلہری نے اس موقع پر کہا کہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں موجودہ صورتحال میں کیا کردار ادا کر سکتی ہیں، اس کا واضح ہونا بہت اہم ہے۔ منصوبہ بندی کمیشن کے رکن عاصم سعید نے کہا کہ ہمیں کمیشن کے کردار میں بہتری لانے کے لیے مؤثر تجاویز سامنے لانے کی ضرورت ہے۔
نیسلے پاکستان کے نمائندے وقار احمد نے کہا کہ کورونا وبا کے بعد کاروباری لاگت میں اضافہ ہوا ہے۔ حکومت کے اس پہلو پر توجہ دینے اور وبا کی آئندہ لہر کی پیش بندی کرنے کی ضرورت ہے۔ فیصل آباد سے نجی شعبے کی نمائندگی کرتے ہوئے رابعہ ضیاء نے کہا کہ ہمیں موجودہ حالات میں پاکستان آنے کی خواہاں کاروباری شخصیات کی مشکلات میں کمی لانے پر بھی توجہ دینی چاہئے۔
سیالکوٹ چیمبر آف کامرس کے سابق صدر محمد اشرف کا کہنا تھا کہ وبا کے دوران کھیلوں کے سامان کی صنعت متاثر ہوئی ہے، ہمیں متبادل مواقع پر توجہ دینی چاہئے۔مسابقت کمیشن کے راحت کونین نے کہا کہ ہمیں اعداو شمار کی ضرورت ہے تاکہ تعین کیا جا سکے کہ چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباروں کو کس طرح کی معاونت کی ضرورت ہے۔
ایس ڈی پی آئی کے جائنٹ ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر وقار احمد نے نجی و سرکاری مکالمے کو تقویت دینے کی ضرورت پر زور دیا اور کہا کہ چھوٹے کاروباروں کو آن لائن کاروبارمیں مشکلات سامنا ہے جن کے حل پر توجہ دی جائے۔اجلاس کے دوران حب لیتھر کے اسفند فرخ، انجینئر ایم اے جبار، شانزہ انور اور ظفر مسعود نے بھی اظہار خیال کیا اور صنعت و کاروبار کو موجودہ حالات میں درپیش مسائل پر روشنی ڈالی۔
Comments are closed.