8 مارچ ’’خواتین کے عالمی دن‘‘ کے طور پر منایا جاتا ہے، جس دن یک زبان ہو کر یہ نعرہ لگتا ہے کہ خواتین کسی لحاظ سے مردوں سے کم نہیں، خواتین اور مرد معاشرتی گاڑی کے دو پہیے ہیں اور دونوں ہی اہمیت کے حامل ہیں، اور معاشرے کا ہموار سفر دونوں ہی کے ایک ساتھ چلنے سے مشروط ہے، سماجی معاملات ہوںیا معاشی، انتظامی معاملات ہوں یا قانونی، ثقافتی معاملات ہوں یا روایتی، ہر پہلو میں خواتین کے کرادر و اہمیت کو کسی صورت نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
خواتین اور معیشت
فی کس جی ڈی پی ایک ایسا معاشی پیمانہ ہے جو کسی ملک کی مجموعی معاشی پیداوار کو اسکی آبادی پر تقسیم کرتا ہے۔ اس پیمانے میں اضافہ جہاں معاشی نمو کی جانب اشارہ ہوتا ہے وہیں اس سے کسی ملک کی پیداواری صلاحیت اور افرادی قوت کا بخوبی اندازہ بھی لگایا جا سکتا ہے۔ وطن عزیز پاکستان کا موجودہ جی ڈی پی 278.2 ارب ڈالرز ہے جبکہ آبادی23 کروڑ کے لگ بھگ ہے، جس تناسب سے فی کس جی ڈی پی 1284 ڈالرزبنتی ہے، اس حوالے سے ہم دنیا میں 134 ویں نمبر پرکھڑے ہیں، جبکہ 1971 میں ہم سے جدا ہونے والے غریب بنگلہ دیش کی فی کس جی ڈی پی 1855 ڈالرز ، بھارت 2099 ڈالرز اور ویتنام کی 2715 ڈالرز ہے۔یقینا یہ سوال ہم سب کے ذہنوں میں گردش کرتا ہوگا کہ آبادی کے لحاظ سے دنیا کے پانچویں بڑے ملک پاکستان کی مجموعی قومی پیداوار آخر انتہائی کم کیوں ہے؟ کیوں ہمارا شمار معاشی ٹائیگر بننے والے ممالک میں نہیں ہوتا؟ ہمیں تو اپنے زور آبادی کو بروئے کار لاتے ہوئے چین اور انڈونیشیا جیسا معاشی انقلاب برپا کر دینا چاہیے تھا مگر ایسا ممکن کیوں نہ ہو سکا؟ ان تمام محرومیوں کی جہاں بیشتر وجوہات ہیں، وہیں ایک بڑی اور قابل فکر وجہ ملک کی 49 فیصد آبادی یعنی ہماری خواتین کا معاشی دھارے میں کوئی ٹھوس کردار نہ ہونا ہے، چنانچہ جب ملک کی نصف آبادی معاشی ترقی میں حصہ دار نہ ہو تو اقتصادی قوت بننے کا خواب کیسے شرمندہ تعبیر ہو سکتا ہے؟عالمی بینک کے اعداد و شمار یہ حیران کن حقیقت بتاتے ہیں کہ ہمارے کل جی ڈی پی میں خواتین 20 فیصد سے بھی کم کی حصہ دار ہیں، جبکہ ہمسایہ ملک چین کے جی ڈی پی میں خواتین کا حصہ 41 فیصد ہے، امریکہ میں 40 فیصد، یورپ میں 41 فیصداور وسطی افریقی ممالک میں بھی خواتین 40 فیصد کی حصہ دار ہیں۔
خواتین کو کب معاشی اہمیت ملنا شروع ہوئی ؟
اس میں کوئی شک نہیں کہ تاریخ کے اوراق خواتین کی معاشرتی پسماندگی اور معاشی استحصال سے بھرے پڑے ہیں، خواہ وہ دور حاضر کے ترقی پذیر خطوط یورپ اور امریکہ ہوں یا کوئی ترقی پذیر علاقے، ہرجگہ عورت کو ایک نا تجربہ کار اور کمزور شے تصور کیا جاتا تھا، اندازہ اس حقیقت سے لگا لیں کہ 100 سال قبل تک امریکہ اور برطانیہ جیسے روشن خیال اور ترقی کی سیڑھی چڑھنے والے ممالک میں بھی خواتین کو ووٹ دینے کا حق حاصل نہ تھا جو حق 1920 میں امریکی آئین میں ترمیم کے بعدحاصل ہوا، اسکے بعد بیسویں صدی میں چلنے والی ’’فیمنزم‘‘ کی مختلف تحریکوں اور سال ہا سال بڑھتی نسوانی حقوق کی جدوجہد نے خواتین کو بااختیار اور انکی مضبوط پہچان بنانے کی راہ ہموار کی، پھر ابھرتے ہوئے معاشی دباؤ اور دنیا میں اقتصادیات کی جنگ نے حالات کو نیا رخ دیا، اور تمام ممالک نے قومی ترقی کیلئے معاشی و سماجی دھارے میں خواتین کی شمولیت کی ضرورت و اہمیت کو سمجھا، اور انہیں قومی دھارے میں لایا گیا۔اس تبدیلی میں سب سے بڑی آزمائش سماج کے حاکمانہ مردوں کی سوچ کو بدلنا تھا، چنانچہ ترقی پذیر ممالک میں صنفی عدم مساوات اور خواتین کے خلاف ہراسگی کو ختم کیلئے پختہ پالیسیاں، لاتعداد حقوق نسواں اور ٹھوس قوانین بنائے گئے ، جنکے کڑے نفاذ کے بعد خواتین کیلئے کام کا ایک خوشگوار اور محفوظ ماحول قائم کیا گیا، زیادہ سے زیادہ خواتین افرادی قوت میں شامل ہوئیں اور مردوں کے شانہ بشانہ کام کرنے لگیں۔ دور حاضر کے مختلف ممالک کا جائزہ لیا جائے جہاں خواتین کی بڑی تعداد معاشی ترقی میں حصہ دار ہیں تو افریقی ملک زمبابوے میں کل لیبر فورس میں خواتین 53 فیصد ہیں ، امریکہ میں یہ تعداد 47 فیصد ہے، فرانس میں 48 فیصد، کینیڈا میں 47 فیصد، بھوٹان میں 49 فیصد، بھارت میں 26 جبکہ پاکستان میں بمشکل 21 فیصد بنتی ہے۔
پاکستانی عورت پسماندہ کیوں؟
ہمارے دین اسلام نے جو عزت اور مقام خواتین کوعطا کیا اسکی مثال کہیں نہیں ملتی۔ اسلام نے خواتین کو حقوق کیساتھ مردوں کے برابر معاشی ومعاشرتی درجات بھی عطا کیے ہیں۔ مگر افسوس کہ سالوں سے اسلامی جمہوریہ پاکستان میں خواتین کیساتھ ہونے والا سلوک نہایت نامناسب ہے، ہم نے دین کی غلط تشریح کرتے ہوئے معاشرے میں مذہبی انتہا پسندی کو پروان چڑھا دیا ہے، امتیازی روئیے تو پہلے بھی موجود تھے، مگر معاشرتی ناسوروں، ماضی کی خود پرست قیادتوں کے انتہا پسند فیصلوں، اور خود ساختہ سماجی برائیوں نے حالات میں مزید بگاڑ پیدا کر دیا ہے۔ایک زمانہ تھا جب قائداعظم محمد علی جناحؒ اپنی بہن کو ہر وقت ساتھ لے کر چلتے تھے، پاکستانی خواتین ہر شعبہ ہائے زندگی میں شامل ہو رہی تھیں،پچاس ساٹھ سال پہلے لاہور اور کراچی کی تصاویر دیکھیں تواس وقت کے لوگ ہم سے کہیں زیادہ روشن خیال اور زیادہ بہادر تھے جو نہ صرف اپنی بیٹیوں کو پڑھا رہے تھے بلکہ انھیں بیٹوں کیطرح مختلف سماجی ذمہ داریاں نبھانے کی اجازت بھی دے رہے تھے۔ مگر آج کے والدین زیادہ شدت پسنداور خوفزدہ ہو چکے ہیں، فضاء میں عجب سا ڈر پیدا ہو گیا ہے، جس سے خواتین کی ترقی رک سی گئی ہے۔
معاشی دھارے میں شمولیت کی رکاوٹیں
وہ چیدہ وجوہات جو پاکستانی خواتین کے معاشی دھارے میں شمولیت کے راہ میں بڑی رکاوٹوں کا جائزہ لیتے ہیں۔سب سے بڑی رکاوٹ ہراسگی اور بعض دفاتر کا غیر محفوظ ماحول ہے، عورت فاؤنڈیشن کے ایک سروے کے مطابق لاہور میں بھی ملازمت پیشہ 90 فیصد خواتین کو کبھی نہ کبھی پبلک ٹرانسپورٹ اور بس سٹاپ پر ہراسگی کا سامنا کرنا پڑا ہے، کوئی مہینہ یا دن ایسا نہیں گزرتا جب مرد ساتھیوں کی جانب سے خواتین کے ساتھ ہراسگی کی کوئی خبر، تصویر یا ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل نہ ہو، ہمارے ہاں بھی قوانین کی عمل داری نہیں ہے۔ قانون پہ قانون تو موجود ہیں مگر نفاذ نہیں کیا جاتا،قانون کی بالادستی کی مثالیں مغربی ممالک میں موجود ہیں۔ جہاں لڑکی رات کے پچھلے پہر، تن تنہا بس میں سفر کر رہی ہو، تب بھی کسی کی مجال نہیں ہوتی کہ اسکی جانب میلی آنکھ سے دیکھے، جبکہ ہمارے ہاں تو چاردیواری میں بیٹھی باپردہ خاتون بھی محفوظ نہیں۔
آئے روز اغواء ، ریپ کے بڑھتے واقعات نے خوف و ہراس پیدا کر دیا ہے، خواتین خود بھی کام کرنے سے گھبرانے لگی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہماری ہزاروں بیٹیاں اعلیٰ اور پروفیشنل تعلیم حاصل کرنے کے با وجود جاب کرنے کو فوقیت نہیں دیتیں۔ جبکہ ہمارا سماجی اور عدالتی نظام بھی اس ناسور پر مؤثر طریقے سے قابو پانے میں ناکام ہے۔تو ایسے غیر محفوظ، غیر یقینی کے عالم اور بے بس نظام میں خواتین معاشی دھارے کا حصہ کیسے بنیں ؟ اگر ماضی میں ہراسگی اور زیادتی کے واقعات میں ملوث افراد کو تمیز و تفریق کے بغیر عبرتناک سزائیں ملی ہوتیں تو یقینا آج حالات مختلف ہوتے، جیسی سزائیں دنیا کی جانی مانی شخصیات کو ملی ہیں۔
خواتین کاروبار سے دور کیوں؟حضرت قائد اعظمؒ نے فرمایا تھا کہ ’’کوئی قوم اس وقت تک ترقی نہیں کر سکتی جب تک کہ اس قوم کے مردوں کے شانہ بشانہ عورتیں بھی ملکی ترقی میں حصہ نہ لیں‘‘ ۔اس کے برعکس ہماری خواتین کو تعلیم حاصل کرنے اور کاروبار کی اجازت نہیں ملتی۔ ورلڈ اکنامک فورم کی رپورٹ بتاتی ہے کہ پاکستان کی 70 فیصد خواتین چھ برس سے بھی کم تعلیم یافتہ ہیں، جن میں سب سے زیادہ پسماندہ پشتون خواتین ہیں، جن کا گھر سے باہر قدم رکھنا بھی غیرت کو للکار دیتا ہے۔ اسی طرح عالمی بینک کی ایک رپورٹ کیمطابق پاکستان میں صرف 1 فیصد خواتین انٹرپرینیور ہیں جو جنوبی ایشیا میں سب سے کم شرح ہے،ہمارے ہاں خواتین کے کاروبار کرنے کو حقارت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے، اور انکا اعتماد بڑھانے کے بجائے انکی حوصلہ شکنی ہوتی ہے، افسوس کہ چند قدامت پسند طبقات عورت کے کاروبار کرنے یا سربراہی کرنے کو جبری طور پر مذہب سے بھی جوڑتے ہیں،مگر کیا ام المومنین حضرت خدیجہؓ تجارت نہیں کرتی تھیں ؟ کیا صدیوں پہلے مسلمان خاتون رضیہ سلطانہ نے پوری سلطنت کی سربراہی نہیں کی تھی؟ چنانچہ اس چیز کو خود ساختہ مذہبی رنگ دینا بھی مناسب نہیں۔یہ بھی حقیقت ہے کہ دنیا کی بیشتر معروف کمپنیاں خواتین کی ہی سربراہی میں کامیاب ترین ہیں، جن میں جنرل موٹرز، یونائیٹیڈ پارسل سروس، اور اینتھم کارپوریشن نمیاں نام ہیں۔ جبکہ چین کے بنجر علاقے Ningxia میں 1982 میں خواتین کے لگائے انگوروں کے پودے آج ملک کے سب سے بڑے باغات بن چکے ہیں۔
اب ہمیں کیا کرنا ہے؟
عالمی بینک کی رپورٹ یہ بھی واضح کرتی ہے کہ پاکستان کی معاشی نمو کا 30 فیصد امتیازی پالیسیوں کی وجہ سے ضائع ہوتا ہے، جس پر قابو پاکر پاکستان اپنی معیشت سنوار سکتا ہے جیسے بنگلہ دیش نے خواتین کو عملی زندگی میں اپنا بھر پور کردار ادا کرنے کی مکمل اجازت دے رکھی ہے، جو اب چار دیواری سے باہر نکل کر بھی کام کر رہی ہیں، وہاں ریڈی میڈ گارمنٹس، خوراک پروسیسنگ، چمڑے، دستکاری اور چائے کی فیکٹریوں میں خواتین کی بڑی تعداد ملازمت پیشہ ہے۔اسی طرح عرب ممالک بھی بتدریج معاشی دھارے میں خواتین کی اہمیت کو سمجھ چکے ہیں اور تمام شعبہ جات میں انکی شمولیت یقینی بنانے کے اقدامات اٹھا رہے ہیں۔ چنانچہ پاکستان کو بھی معاشی ترقی کیلئے زیادہ سے زیادہ خواتین کو افرادی قوت میں شامل کرنا ناگزیر ہے۔
(یہ آرٹیکل دنیا اخبار میں پبلش ہوچکا ہے)
Comments are closed.