پاک فوج کے ترجمان میجرجنرل بابرافتخارنے کہا ہے کہ طالبان کی جانب سے افغان سرزمین کسی ملک کے خلاف استعمال نہ ہونے دینے کی یقین دہانی پر پورا بھروسا ہے، اگر کالعدم ٹی ٹی پی نے کوئی حرکت کی تو پاک فوج تیار ہے، بھارت نے افغانستان میں سرمایہ کاری صرف پاکستان کو نقصان پہنچانے کی نیت سے کی۔
آئی ایس پی آر راولپنڈی میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ افغانستان میں 15 اگست کے بعد عسکری صورتحال میں تیزی سے تبدیلی آئی ہے، اشرف غنی کی حکومت کا خاتمہ سب کی امیدوں کے برعکس تھا، افغان امن عمل میں پاکستان کے کردار کے حوالے سے سب کو معلوم ہے، امریکا اور نیٹو افواج کا انخلا پہلے سے طے شدہ تھا، پاکستان نے ممکنہ صورتحال کے پیش نظر پاک۔افغان بارڈر کو محفوظ بنانے کیلئے اقدامات کئے ہیں، بین الاقوامی سرحد کی پاکستانی سائیڈ مکمل طور پر محفوظ ہے۔
میجر جنرل بابر افتخار کا کہنا تھا کہ افغان سرحد پر عدم استحکام کی صورتحال کے پیش نظر فوجی دستے تعینات کئے گئے، سرحد پر قانونی دستاویزات کے ساتھ ہمدردی کی بنیاد پر نقل و حمل کی اجازت ہے۔ انہوں نے کہا افغانستان سے غیر ملکیوں کو نکالنے کے لیے دوسرا سب سے بڑا مقام پاکستان ہے۔ہم نے افغانستان چھوڑنے کے خواہاں غیر ملکیوں کے انخلا کیلئے پروازوں کی اجازت دی ہے۔ اب تک 113 پروازیں فوجی اور تجارتی دونوں افغانستان سے پاکستان پہنچ چکی ہیں۔
ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا پاکستان کی مسلح افواج نے اندازہ لگایا تھا کہ حالات کس طرح بدلنے جا رہے ہیں اور عدم استحکام کا امکان ہے جس کی وجہ سے کنٹرول کو یقینی بنانے کے لئے فوجیوں کو اہم سرحدی گزر گاہوں پر منتقل کردیا گیا تھا۔ انہوں نے بتایا 78میں سے 17 سرحدی گزرگاہوں کو مزید تعیناتی کے لئے نوٹیفائی کیا گیا تھا اور تمام غیر قانونی تجاوزات کو بند کر دیا گیا ، 15 اگست کے بعد ٹرمینلز اور سرحدی گزرگاہیں کھلی رکھی گئیں، قافلے مسلسل آرہے اور جارہے ہیں،سرحدی امور معمول کے مطابق ہیں، کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش نہیں آیا۔
پاک فوج کے ترجمان نے کہا کہ پڑوسی ملک میں کئی دہائیوں سے جاری جنگ سے افغانوں کے علاوہ اس تنازع کے سب سے زیادہ متاثرین پاکستانی ہیں۔ سوویت یونین کے حملے کے بعد سے ہمیں خانہ جنگی کا سامنا کرنا پڑا ، جہاں ہم گزشتہ دو دہائیوں کے دوران دہشت گردی کے خلاف اس جنگ میں شامل تھے، مشرقی سرحد پر بھی ہم نے تین بڑی کشیدگیوں کا سامنا کیا ، پاکستان میں ایک سال میں 90 سے زائد دہشت گردی کے واقعات بھی رونما ہوئے ہیں۔ اس کے علاوہ 2014کے بعد سے 2020 تک ایل او سی پر سیز فائر کی 12 ہزار 312 خلاف ورزیاں ہوئیں۔
اس عرصے کے دوران فوجی کارروائیوں کی تفصیلات دیتے ہوئے ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ مسلح افواج نے 1237 بڑے اور معمولی آپریشن کئے اور مغربی سرحد کے ساتھ 46 ہزار مربع کلومیٹر سے زیادہ کا علاقہ دہشت گردوں سے پاک کیا۔ جب مغربی سرحد پر دہشت گردی کے خلاف آپریشن چل رہے تھے اور مشرقی سرحد پر بھارت کی جانب سے سیز فائر کی خلاف ورزیاں ہو رہی تھیں یہ وہ وقت تھا جب پاکستان نے جامع بارڈر مینجمنٹ سسٹم کا اہتمام کیا۔
انہوں نے کہا آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے سرحد مکمل طور پر محفوظ بنانے کا وژن دیا، اہم بارڈر ٹرمینلز کو جدید ٹیکنالوجی سے لیس کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ 2012 تک پاکستان اور افغانستان کے درمیان کوئی باقاعدہ بارڈر میکنزم موجود نہیں تھا، دونوں ملکوں کے درمیان سرحدی انتظام کے حوالہ سے اقدامات کئے گئے جبکہ خفیہ اطلاعات کے تبادلے کیلئے بھی طریقہ کار وضع کیا گیا۔ افغان سرحد پر باڑ کے بارے میں انہوں نے کہا کہ یہ ایک بہت بڑی اور اہم کاوش تھی، اس کام کے دوران کئی پاکستانی فوجیوں کی جانیں گئی ہیں ، پاک افغان سرحدپر باڑ لگانے کا 90 فیصد کام مکمل کیا جا چکا ہے۔ حالیہ دنوں میں پاکستان اور ایران کی سرحد پر بھی باڑ لگانے کا کام ہو رہا ہے اور 50 فیصد تک مکمل ہو چکا ہے۔
ترجمان پاک فوج نے کہا کہ پاکستان نے افغانستان کو سرحد پر سکیورٹی اور انٹیلی جنس تعاون کے علاوہ فوجیوں کی تربیت کی کئی بار پیشکش کی تاہم صرف کچھ ہی افغان افسر یہاں آئے جبکہ زیادہ تر نے بھارت سے تربیت حاصل کی ۔ افغانستان کو تعاون کی اس پیشکش کا پس منظر بتاتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں امن و امان افغانستان میں امن کے قیام سے وابستہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ افغان عوام کے بعد اس تنازع کا سب سے زیادہ نقصان پاکستان کو ہوا ہے، پاکستان کو 80 ہزار سے زیادہ قیمتی جانوں کے ساتھ ساتھ 102 بلین ڈالر کے معاشی نقصانات بھی برداشت کرنا پڑے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان ہی افغانستان سے انخلا کے عمل کا سب سے اہم حصہ ہے اور اب تک 5500 غیر ملکیوں کو پاکستان کے ذریعے افغانستان سے نکالا جا چکا ہے۔چین اور ازبکستان سمیت خطہ کے دیگر ممالک سے عسکری تعاون کے حوالے سے سوال کا جواب دیتے ہوئے ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ ان ممالک کی افواج میں کوئی براہ راست رابطے نہیں ہوئے بلکہ یہ حکومتی سطح پر ہی محدود ہیں۔ پنج شیر میں جنم لینے والی صورتحال کے حوالے سے سوال پر کہا کہ افغانستان میں خانہ جنگی کا ہمیشہ سے خطرہ رہا ہے تاہم اس وقت صورت حال تیزی سے تبدیل ہو رہی اور کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہو گا تاہم فی الحال خانہ جنگی کا امکان نہیں ہے۔
افغانستان سے پناہ گزینوں کی آمد سے متعلق انہوں نے کہا کہ پناہ گزین پاکستان نہیں آ رہے، سرحد پر افراتفری کی صورتحال نہیں ہے اور ہر آنے جانے والا متعلقہ دستاویزات کے ساتھ آ رہا ہے۔ ترجمان پاک فوج نے کہا کہ افغانستان میں بھارت کا منفی کردار رہا ہے،بھارت نے افغان قیادت، فوج اور انٹیلی جنس کے ذہنوں کو زہر آلود کیا، امید ہے افغانستان سے اسکا اثر ختم ہو جائے گا، اسے افغان عوام سے کوئی لگائو نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں ہونے والی تخریبی کارروائیوں میں بھارت ملوث ہے، این ڈی ایس اور را پاکستان کے خلاف منصوبہ بندی کرتی رہی ہیں۔
میجر جنرل بابر افتخار نے کہا کہ سی پیک سے متعلق منصوبوں پر کام کرنے والے چینی باشندوں پر ہونے والے حملوں کی منصوبہ بندی بھی افغانستان میں ہوئی تھی۔ ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ کالعدم ٹی ٹی پی پاکستان کے خلاف افغان سرزمین استعمال کرتی رہی،اب افغانستان کے ساتھ ہماری سرحد محفوظ اور صورتحال ہمارے کنٹرول میں ہے، توقع ہے طالبان اپنے وعدوں پر عمل کریں گے، طالبان نے یقین دلایا ہے کہ ٹی ٹی پی کو افغان سرزمین سے پاکستان یا کسی بھی ملک کیخلاف کارروائی کرنے کی اجازت نہیں ہوگی، اس لئے وہ وہاں آزادی سے نہیں رہ سکیں گے۔
ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ سی پیک منصوبوں کی سکیورٹی پر پاک فوج کے دستے تعینات ہیں۔ داسو، لاہور، کوئٹہ اور گوادر میں دہشت گردی واقعات کے ذمہ داروں کا تعین کر دیا ہے۔انہوں نے نشاندہی کی کہ پاکستان افغانستان میں بگاڑ پیدا کرنے والوں کے منفی کردار کے بارے میں دنیا کو بار بار خبردار کر رہا ہے جو مسلسل ایسا کر رہے ہیں۔دو دہائیوں کے بعد ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہم نے پوری قوم کے نقطہ نظر سے دہشت گردی کی لعنت کا اچھی طرح مقابلہ کیا ہے، یہ تمام کارروائیاں ناقابل تسخیر جذبے اور پوری قوم کی کوششوں کی عظیم قربانی کا مظہر ہیں۔
Comments are closed.