شیخ رشید احمد ۔۔۔’عوامی لیڈر‘ سے اینگری مین کیوں بنے؟

سینئر پارلیمنٹیرین اوروفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید احمد کا لب و لہجہ بدل گیا، وزارت داخلہ سنبھالتے ہی انہوں نے صحافیوں کو پریس کانفرنسز اور میڈیا بریفنگز میں بے توقیر کرنا معمول بنا لیا۔ اپنے مطلب کے علاوہ کوئی بھی صحافی سوال کرے تو انہیں سخت ناگوار گزرتاہے، کوئی چبھتا سوال کر دے تو اس کی تذلیل کرنااپنا حق سمجھتے ہیں۔

تازہ واقعہ نیوزی لینڈ کرکٹ ٹیم کی سیریز منسوخی کے بعدپریس کانفرنس میں پیش آیا، جب جیو نیوز سے وابستہ سینئر صحافی آصف بشیر چوہدری نے سوال کیا ” آپ وفاقی وزیر داخلہ ہیں غیر ملکی کھلاڑیوں کو سیکورٹی دینا آپ کی ذمہ داری تھی؟ سوال مکمل ہونے سے قبل ہی شیخ رشید نے انہیں ٹوک دیا اور کہا ”آپ کے سوال بہت لمبے ہوتے ہیں اسے شارٹ کریں”۔

آصف بشیر چوہدری نے دوبارہ سوال کرنے کی کوشش کی تو شیخ رشید نے روایتی متکبرانہ انداز میں ان کا سوال لینے سے انکار کرتے ہوئے ،دوسرےصحافی کو سوال کرنے کا کہہ دیا۔ صحافی نے تیسری مرتبہ کوشش کرتے ہوئے سوال پوچھا، اور کہا پھر مختصر سوال یہ ہے کہ ،،کیا آپ بحیثیت وزیر داخلہ اسے اپنی کوتاہی مانتے ہوئے مستعفی ہوں گے؟ سوال پر شیخ رشید بپھر گئے؟ صحافی کو کہا ’’تمہارا دماغ تو خراب نہیں ہوگیا، عقل کی بات کرو‘‘۔

یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ ماضی میں جب عوامی مسلم لیگ کے سربراہ اپنی اکلوتی نشست کے ساتھ رکن قومی اسمبلی اور اپوزیشن بینچز کا حصہ تھے تو ہر سانحے، واقعے اور حادثے کے بعد شیخ رشید احمد اس وقت کے متعلقہ وزیر سے استعفے کا مطالبہ کرتے رہتے تھے۔

 اس سے قبل بھی ایک پریس کانفرنس سے قبل جیو نیوز کے ہی صحافی اعزاز سید کو اپنے ایک ماتحت ادارے کے سربراہ کے دورہ کابل سے متعلق پریس کانفرنس کے دوران سوال نہ کرنے کیلئے قائل کرنے کی کوشش کرتے رہے ، تاہم جب اعزاز سید نے وہی سوال پریس کانفرنس میں پوچھا تو رعونت کے ساتھ سوال رد کرتے ہوئے کہا، یہ دفتر خارجہ سے جا کر پوچھیں۔

 سوال یہ ہے کہ قومی اسمبلی میں اکلوتی نشست رکھنے والی عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید احمد اس قدر تکبر میں کیوں مبتلا ہو چکے؟ کیا وہ اپنے عہدے اور اختیار کو دائمی سمجھ بیٹھے ہیں؟ یا چند بڑے میڈیا ہاؤسز کے مالکان سے تعلقات کی وجہ سے عام صحافیوں کی تذلیل کرنا اپنا حق سمجھتے ہیں کہ جب مالکان مٹھی میں ہیں تو صحافیوں سے کیسا ڈرنا؟

شیخ رشید احمد سے پہلے بھی یہاں ایک وزیرداخلہ تھے، وہ بھی چند منظور نظر صحافیوں کے علاوہ کسی کو خاطر میں نہیں لاتے تھے لیکن اب گزشتہ تین سال سے صحافیوں کی راہ دیکھ رہے ہیں۔ راولپنڈی کے ایک اینگری مین کو دوسرے سے سبق سیکھنا چاہیے۔

Comments are closed.