اسلام آباد ہائیکورٹ کا شیریں مزاری کو رہا، گرفتاری کی جوڈیشل انکوائری کا حکم

اسلام آباد : اسلام آباد ہائی کورٹ نے تحریک انصاف کی رہنما شیریں مزاری کو فوری رہا کرنے اور گرفتاری واقعے کی جوڈیشل انکوائری کرانے کا حکم دے دیا۔شیریں مزاری کوگزشتہ روز اسلام آباد سے گرفتارکیا گیا تھا جس کے بعد اسلام آباد ہائیکورٹ نے انہیں رات ساڑھے گیارہ بجے تک پیش کرنے کا حکم دیا۔عدالت کے احکامات پرپولیس نے شیریں مزاری کوعدالت پیش کردیا۔

تحریک انصاف کی جانب سے شیریں مزاری کی بازیابی کے لیے دائر درخواست پر سماعت چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ اطہر من اللہ نے کی۔سماعت شروع ہوتے ہی شیریں مزاری نے عدالت سے استدعا کی کہ میں بات کرنا چاہتی ہوں۔میرا راستہ روکا گیا۔تشدد کیا گیا۔مجھے گاڑی سے گھسیٹ کر نکالا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ جبری گمشدگیاں کے معاملے پر یہ عدالت کوئی سمجھوتہ نہیں کرے گی۔

شیریں مزاری نے کہا کہ مجھے موٹروے پر لے گئے اور کبھی کہا راجن پور جائیں گے۔کبھی کہا لاہور جائیں گے۔پولیس کے ساتھ سادہ کپڑوں میں بھی لوگ تھے۔میں 70 سالہ ہوں بیمار ہوں۔پھر بھی تشدد کیا گیا۔میرا موبائل فون چھین لیا گیا۔ابھی تک واپس نہیں دیا گیا۔انہوں نے عدالت کو بتایا کہ کلرکہار سے مجھے واپس اسلام آباد لایا گیا۔میرے بیگ کو کھول کر مکمل چیک کیا گیا۔اسلام آباد پولیس بھی تشدد کی مکمل ذمہ دار ہے۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا گرفتاری سپیکر کی اجازت سے ہوئی۔یہ عدالت صرف آئین اور قانون کو دیکھے گی۔کس قانون کے تحت گرفتاری کی گئی۔ کیا ڈپٹی اسپیکر کی اجازت کے بغیر کوئی دوسرے صوبے سے آسکتا ہے۔کیا عدالت چیف کمشنر کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کرے۔ مطیع اللہ جان کے کیس کی آج تک تفتیش نہیں ہوئی۔ ذمہ داران کا تعین کرنا ہو گا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ اس معاملے کی کون انکوائری کرے گا۔ ایمان مزاری نے عدالت سے استدعا کی کہ اس معاملے کی عدالتی تحقیقات کرائی جائیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ جب آئین کا احترام نہیں ہوتا تو ایسے واقعات رونما ہوں گے۔ہر حکومت کا آئینی خلاف ورزیوں پر افسوسناک رویہ ہوتا تھا۔افسوس کی بات ہے کہ کسی حکومت نے جبری گمشدگیوں پر کوئی ایکشن نہیں لیا۔یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ کسی کو پتہ ہی نہیں تھا کہ شیریں مزاری کو کیسے اٹھایا گیا۔ آئی جی اسلام آباد نے کہا کہ میں نے آج ہی چارج لیا واقعہ پہلے ہوچکا تھا۔ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ وفاقی حکومت کو واقعے کا علم ہی نہیں تھا ۔عدالت جو حکم دے گی ہم عمل کریں گے۔ہم عدالت کے مشکور ہیں کہ عدالت نے رات اس پہر سماعت کی۔سیاسی جماعت کو اب یہ ماننا پڑے گا کہ عدالت رات کو آئینی تحفظ کے لیے موجود ہے۔جیسے ہی اس بات کا پتہ چلا تو ان کی فوری رہائی کے احکامات جاری کیے گئے۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اگر کسی کیس میں گرفتاری عمل میں لائی گئی تو رہائی کا حکم کیسے دیا گیا؟۔ایڈووکیٹ جنرل نے عدالت کو بتایا کہ شیریں مزاری استعفیٰ دے چکی ہیں۔اس لیے اسپیکر سے اجازت نہیں لی۔جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ وہ بے شک استعفیٰ دے چکی ہوں۔مگر انہیں ڈی نوٹیفائی نہیں کیا گیا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ماضی میں بھی ارکان اسمبلی کو گرفتار کیا گیا۔جو آج بھی کسٹڈی میں ہیں۔پولیٹیکل لیڈرشپ کو بیٹھ کر سوچنا چاہئے۔آئین کا احترام نہیں ہو گا۔ تو یہ سب چلتا رہے گا۔عدالت ایمان مزاری کی بہت عزت کرتی ہے۔وہ عدالت میں انسانی حقوق کے کیسز لے کر آتی ہیں۔ایمان مزاری آج یقینا بہت ایموشنل ہوں گی۔

عدالت نے شیریں مزاری کی گرفتاری پر وفاقی حکومت کو جوڈیشل انکوائری کرانے کا حکم دیتے ہوے انہیں فوری رہا کرنے کا حکم دیدیا۔ عدالت نے آئی جی اسلام آباد کو ہدایت دی کہ ائی جی اسلام آباد شیریں مزاری کو گھر تک پہنچائیں اور شیریں مزاری کو گھر میں بھی سیکیورٹی دینے کا حکم دیا۔عدالت نے وفاقی حکومت کو شیریں مزاری کی گرفتاری پر ٹی او آرز بنا کر عدالت میں پیش کرنے کا حکم بھی دیا۔عدالت نے شیرین مزاری کا موبائل فون و دیگر چیزیں واپس کرنے کا حکم جاری کرتے ہوئے سماعت 25 مئی تک ملتوی کر دی گئی۔

Comments are closed.