لاہور : چیف جسٹس پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال کا کہنا ہے کہ آئین کا تحفظ کرنا عدلیہ کی ذمہ داری ہے فیصلے آئین کی روح کے مطابق ہونے چاہئیں اگر آئین کہتا ہے نوے دن میں الیکشن ہوں گے تو ہمیں اس پر عملدرآمد کرنا ہوگا.ہمارے پاس کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے یہ کسی کی چوائس کی بات نہیں بلکہ آئین کی بات ہے۔
آئین میں اقلیتوں کے حقوق کے عنوان متعلق کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا آئینی ادارے کے طور پر جب سپریم کورٹ کوئی فیصلہ دیتی ہے تو اس کی ایک اخلاقی وزن ہوتا ہے جب کوئی ریوئو بھی فائل نہ ہوتا پھر اسکا مطلب ہے کسی ہو اس پر اعتراض نہیں ہے. عدلیہ کے فیصلوں کی اخلاقی حیثیت ہوتی ہے انہوں نے کہا کہ میں پر امید ہوں کہ پاکستان کے تمام ادارے آئین سے وفا دار ہیں آئین سے کمٹڈ ہیں انہوں نے واضح کیا کہ ہمارا مذاکرات سے کوئی لینا دینا نہیں. ہمارا فیصلہ موجود ہے اس پر عملدرآمد ہونا ہے مگر تاریخ اس فیصلے پر اپنی مہر ثبت کرے گی۔
چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال کا کہنا تھا کہ میں ایک جج ہوں ہم اپنے سنئیر جسٹس کار نیلئس کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے اکھٹے ہوئے ہیں جسٹس کار نیلئس مجسم انصاف تھے انہوں قانون کے علاؤہ دوسرے بہت سے علوم پر کمال حاصل تھا دنیا کے اعلی ترین اداروں سے تعلیم حاصل کی وہ سول سروس کے عہدے پر تعینات ہوسکتے تھے مگر انہوں نے قانون انصاف کے شعبے کا انتخاب کیا۔
چیف جسٹس پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ انہوں نے سترہ سال عدالت عظمی میں خدمات سر انجام دی وہ پاکستان کے سب سے زیادہ عرصہ تعینات رہنے والے چیف جسٹس تھے انہوں نے گورنر جنرل کی جانب سے قانون ساز اسمبلی کی تحلیل کو غیر قانونی قرار دیا انہوں نے اپنے فیصلوں سے یہ پیغام دیا کہ ایک جج کو کیسا ہونا چاہیے جسٹس کار نیلئس نے بنیادی حقوق پر بے شمار فیصلے دیے ہمارا آئین اقلیتوں کے حقوق کی مکمل ضمانت دیتا ہے چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ آئین کسی بھی مذہب کو اختیار کرنے کی اجازت دیتا ہے کسی شخص کے ساتھ مذہب اور نسل کی بنیاد پر امتیاز نہیں کیا جاسکتا اس کے باوجود ہماری اقلیتیں سمجھتی ہیں کہ انہیں نظر انداز کیا گیا۔
Comments are closed.