اسلام آباد : این ڈی ایم اے نے آئندہ 24 گھنٹوں تک سمندری طوفان کی شدت اسی رفتار سے برقرار رہنے کا امکان ظاہر کیا ہے ، این ڈی ایم اے کا کہنا ہے کہ این ای او سی میں بائپر جوائے کی پیش رفت پر مسلسل نگرانی جاری ہے،عوام سیر و تفریح کےلیے سمندری ساحل پر جانے سے گریز کرے۔
ترجمان این ڈی ایم اے کے مطابق سائیکلون بائپر جوائے 150 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے شمالی بحر ہند میں موجود ہے،آئندہ چوبیس گھنٹوں تک اس کی شدت اسی رفتار سے برقرار رہنے کا امکان ہے، سمندری طوفان کراچی سے تقریباً 910 کلومیٹر اور ٹھٹھہ سے 890 کلومیٹر کے فاصلے پر جنوب کی سمت پر واقع ہے۔
ترجمان این ڈی ایم اے کا کہنا ہے کہ ممکنہ طور پر ساحلی علاقے تیز آندھی ، سمندری طوفان اور سیلاب کے زد میں آ سکتے ہیں، این ای او سی میں بائپر جوائے کی پیش رفت پر مسلسل نگرانی جاری ہے،این ڈی ایم اے نے مئی میں باضابطہ طور پر سمندری طوفان کے بارے میں متعلقہ حکام کو آگاہ کر دیا تھا۔
ترجمان این ڈی ایم اے کے مطابق ممکنہ اثرات کو مد نظر رکھتے ہوئے عوام موسمیاتی حالات سے آگاہ رہیں، عوام سیر و تفریح کےلیے سمندری ساحل پر جانے سے گریز کرے،کسی بھی ہنگامی صورتحال میں مقامی انتظامیہ کی ہدایت پر عمل کریں۔
دوسری جانب وزیراعظم شہباز شریف نے سمندری طوفان ’بائپر جوائے‘ کے پیش نظر پیشگی ہنگامی اقدامات اٹھانے کی ہدایت کر دی۔وزیراعظم شہباز شریف نے خیبر پختونخوا کے مختلف علاقوں میں بارشوں سے قیمتی انسانی جانوں کے نقصان پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے جاں بحق افراد کے اہلخانہ سے تعزیت اور اظہار ہمدردی کیا ہے۔
وزیراعظم نے این ڈی ایم اے کو متاثرہ علاقوں میں امداد اور بحالی کے اقدامات یقینی بنانے کی ہدایت کرتے ہوئے خیبرپختونخوا کے نگران وزیراعلیٰ سے کوآرڈینیشن کی بھی ہدایت کی ہے۔
وزیر اعظم شہباز شریف نے این ڈی ایم اے کو متاثرہ علاقوں میں عوام کی بھرپور مدد یقینی بنانے، مقامی انتظامیہ کو متحرک کرنے اور امدادی سرگرمیوں اور نقصانات سے متعلق 24 گھنٹوں میں رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کی ہے۔اس کے علاوہ وزیراعظم شہباز شریف نے بلوچستان میں بھی طوفان اور بارشوں سے متاثرہ علاقوں اور عوام کی بھرپور مدد کی ہدایت کی ہے۔
وزیراعظم نے مقامی انتظامیہ کو طوفان ’بائپر جوائے‘ کے پیش نظر پیشگی ہنگامی اقدامات اٹھانے کی ہدایت کی اور کہا کہ پورے ملک میں امدادی کاموں کی خود نگرانی کر رہا ہوں، انتظامیہ اور ادارے عوام کی مدد میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھیں۔
Comments are closed.