امریکہ کے دوستوں، میرے پڑھنے، دیکھنے سننے والوں نے پیغامات سے واٹس ایپ تقریبا ‘ہیک’ سا کردیا ہے، یہی حال میسنجر کا ہے ، اور ایک ہی سوال پوچھا جارہا ہے، ویڈیو کیوں بند کردیا؟ سب سے پہلے تو اس قدر وابستگی ظاہر کرنے کا شکریہ ، آپ کے اس سوال کا جواب یہی دے سکتا ہوں، جیسا کہ آپ سب جانتے ہیں ان دنوں پاکستان میں ہوں، پیرس لندن یا جینوا نہیں آیا، جہاں زندگی کی سہولیات امریکہ جیسی ہی ہیں، یہاں انٹرنیٹ ایسے ہی دستیاب ہے جیسے کبھی مصطفی زیدی نے کہا تھا
دل کی ایک ایک بوند گراں ہے، اک اک جرعہ شب نایاب
شام و سحر کے پیمانے میں جو کچھ ہے ڈر ڈر کے پئیو
جب ریاست میں حکومت اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے سے انکار کردے یا صلاحیت کھو بیٹھے تو کاروباری ادارے ہی نہیں ہر فرد شتر بے مہار ہوجاتا ہے اور جو حلقے، طبقے یا افراد ضد کرتے ہیں کہ پاکستان یا تیسری دنیا کے لوگ ہی خراب ہیں، میں اس فکر و نظریے سے اختلاف کرتے ہوئے سمجھتا ہوں کہ کائنات میں بسنے والے تمام انسان ایک جیسی فطرت کے مالک ہیں، ان کی عادتیں جو سماج پر کسی منفی اثر کا باعث بنتی ہیں انہیں بدلنے کے لئے پہلے مذاہب لائے گئے اور پھر ریاستی نظام جو جزا اور سزا پر کھڑے ہیں اور ان کے ذمے ہی انسانوں کی وحشت لالچ خود غرضی کو قابو میں رکھنا ہوتا ہے اور اسی کے ذریعے ایک منظم انسانی معاشرہ ترتیب دیا جاسکتا ہے، پاکستان میں ٹیلی فون اور انٹرنیٹ کمپنیوں کے سر اس وقت کڑاہی میں ہیں اور انگلیاں شہریوں کی۔۔۔۔۔۔۔۔
یہاں قومی سطح پر کئی مباحث ہورہے ہیں ایک بڑی بحث یہ ہورہی ہے کہ عمران خان کب اندر ہوں گے اور نواز شریف ہی کیا اگلے وزیر اعظم ہونگے؟ جیسا کہ ان کا حمایتی میڈیا ان کے حق میں منظر نگاری کررہا ہے اور حکومت نے ان کی واپسی کے بتدریج انتظامات بھی شروع کردیے ہیں پارلیمنٹ سے بل کی منظوری کے بعد کہا جارہا ہے وہ اب انتخابات میں حصہ لے سکیں گے، مگر انکی واپسی اس وقت ہی ممکن ہوگی جب موجود چیف جسٹس کے چل چلاؤ کے دن شروع ہوجائیں گے اور یہ دن اگست کے دوسرے ھفتے سے شروع ہوجائیں گے ، اور انہی دنوں میں خان صاحب کی گرفتاری کے امکانات بھی ہیں ، اور چیف جسٹس کے چل چلاؤ کے دنوں میں ہی خان صاحب
کو کسی ریلیف سے محفوظ بنانے کے لئیے بھی ایک بل پاس کرلیا گیا ہے جسکے ذریعے نیب قوانین میں ترمیم کی گئی ہے اور نیب کو یہ اختیار دیا گیا ہے ، ملزم کی جانب سے تعاون نہ کرنے پر گرفتار کرکے چودہ دن کی بجائے تیس دن کا ریمانڈ لیا جاسکتا ہے جسے کسی عدالت میں چیلنج نہیں کیا جاسکے گا ، نواز شریف کے چوتھی بار وزیر اعظم بننے کی خبروں میں صداقت کا اندازہ مڈل ایسٹ میں ان کی سرمایہ داروں سے ملاقاتوں اور انہیں دی جانے والی یقین دہانیوں سے کیا جاسکتا ہے ، نواز شریف وہاں کی حکومتوں کے مہمان بھی ہیں ، اور ایسا جب ہی ممکن ہوتا ہے جب ریاست کی اسٹیبلشمنٹ ساتھ ہو ، ہم سب ہی جانتے ہیں مڈل ایسٹ کی حکومتوں میں پاکستانی اسٹیبلشمنٹ ہی پاکستان سے ہونے والے تمام معاملات کی اول و آخر ضامن تصور کی جاتی ہے ، آج کل میں آپ نے سنا بھی ہوگا ملک کے وزیراعظم نے اعتراف کیا ہے سعودیہ اور یو اے ای سے لیکر چین تک مالی امداد کے حصول میں فیصلہ کن کردار آرمی چیف نے ادا کیا ہے۔
دوسری طرف سب سے بڑی بحث جو عوامی سطح پر سننے کو ملتی ہے “آیا اس ریاست میں حکومت ناپید ہے یا عنقا ؟ “۔۔۔ کیونکہ عوامی مسائل کے حوالے سے میرا بھی دو ماہ کا تجربہ یہی کہہ رہا ہے یہ بحث بالکل جائز ہے جسے میڈیا اور تھنک ٹینکس میں موضوع گفتگو بنایا جانا چائیے تھا، مگر تھنک ٹینکس یہاں کہیں کوئ وجود ہی نہیں رکھتے ، میڈیا سیاست دانوں اسٹیبلشمنٹ اور بیوروکریسی اور عوام کے درمیان وہی کردار ادا کررہا ہے جسے کمیونسٹ دانشوروں نے سماج کو تین حصوں پرولتاریہ (غریب) پیٹی بروژوا (مڈل کلاس) اور بروژوا (سرمایہ دار اشرافیہ ) میں تقسیم کرتے ہوئے پیٹی بروژوا کو سب سے زیادہ خطرناک قرار دیا تھا جو غریب اور اشرافیہ کے درمیان پل کا کردار ادا کرنے کے بہانے غریبوں کا سودا کرکے اشرافیہ کا حصہ بن جاتا ہے، یہاں یہ بھی بتاتا چلوں کہ دنیا نیوز اور پنجاب گروپ آف کالجز کے مالک میاں عامر محمود کا نام نگراں وزیر اعظم کے طور پر لیا جارہا ہے، جبکہ اس سے پہلے کہا جارہا تھا آصف زرداری کے دونوں منہ بولے بیٹے اعجاز گوہر اور پنجاب کے نگراں وزیر اعلی محسن نقوی بھی اس دوڑ میں شامل تھے، یہاں موجود حکومت بس پلوں سڑکوں کے افتتاح ہاسپٹلز کے دوروں ، آئی ایم ایف سے معاہدہ، پرمٹ، پلاٹ اور پریس کانفرنسوں کی حد تک باقاعدگی سے نظر آتی ہے، باقی اس فسانے میں بھی کوئی حقیقت نہیں کہ یہ ملک اللہ چلا رہا ہے، یہ ملک وہی چلاتے آئے ہیں جنہوں نے بہت سے ترلوں جھوٹے سچے وعدوں دعوں کے بعد آئ ایم ایف سے معاہدہ کروایا ہے ، اور جن کے کے ہر ہر احسان کے بدلے میں گالیاں دی اور دلوائی جاتی ہیں، ممکن ہے ان کی خود کی حکمت عملی بھی یہی ہو کہ احسان کے بعد شر کا سامنا کرنے میں ہی کوئی فائدہ پنہاں ہو کہ
“لوگو تمہیں ان کے شعور و فہم کا ادراک ہے نہ بصیرت”
مہنگائی کے بارے میں میڈیا پر جس کمی کے فسانے گڑھے جارہے ہیں وہ مکمل جھوٹ پر مشتمل ہیں، یہاں کم از کم دن میں تین بار بنیادی غذائی اشیا کی قیمتوں میں تبدیلی ہوتی ہے، جو خاندان ماہانہ تیس سے پچاس ہزار روپے اگر کماتا ہے تو یقین رکھا جائے یا تو وہ بھوک سے بلک بلک کر مر رہا ہے یا پھر بھیک مانگ رہا ہے اور اگر ان دونوں کاموں میں سے ایک بھی نہیں کررہا تو یقینا کسی جرم میں ملوث ہوچکا ہے، میڈیا پر معاشرے میں روز ہونے والے تشدد کی خبروں کو جمع کرکے دیکھیں تو سچائی جاننے سمجھنے میں دیر نہیں لگے گی ، اس وقت حکمراں اشرافیہ میں ہر طرف آئ ایم ایف سے معاہدے کی لڈیاں بھنگڑے ڈالے جارہے ہیں اور بتایا جارہاہے بس دودھ شہد کے چشمے کوئ دیر جاتی ہے پھوٹنے کو ہیں ، مگر اسحاق ڈار کو نوازنے کی جو قیمت پچیس کروڑ عوام نے ادا کی ہے اس پر تبصرے قریباٍ نہ ہونے کے برابر ہیں، بجلی کی لوڈ شیڈنگ کا حال یہ ہے ملک کے تمام چھوٹے شہروں اور دیہی علاقوں میں دس سے بارہ گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ ہے، بلوچستان اور اندرون سندھ یہ لوڈ شیڈنگ اس سے بھی زیادہ ہے جہاں گزشتہ دنوں درجہ حرارت پچاس ڈگری کراس کر گیا تھا، جبکہ ملک کے تمام غریب علاقے اس لوڈ شیڈنگ کاخصوصی نشانہ ہیں ، بعض علاقوں میں تو یہ بجلی بیگم دو چار دن میں ایک آدھ گھنٹے کے لئیے ہی تفریحی دورے پر جاتی ہیں ، ایک بحث جمہوریت کے مستقبل کے حوالے سے ہے ، گو کے اسکا مستقبل کراچی میں بلدیاتی انتخابات اور اسکے بعد بننے والی بلدیاتی حکومت سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ مئیر نے اپنے اختیارات سنبھال بھی لئیے اور انکا استعمال بھی شروع کردیا مگر بلدیہ کونسلروں کا اجلاس اُس وقت بلایا جائے گا جب مئیر صاحب منتخب کرلئیے جائیں گے ، یہاں دلچسپ امر یہ بھی ہے وہ سیاسی سماجی اور صحافتی دانشور جنہیں رات دن آئین جمہوریت لاور انسانی حقوق کی حفاظت کا عارضہ لاحق ہے ، اس معاملے پر پتھر کے دور کے انسان کی یاد تازہ کرتے نظر آتے ہیں ، مجموعی طور پر اگر سیاسی سماجی معاشی صورت حال کو سمجھنا ہے تو امریکی میڈیا میں ٹائیٹانک کی سیر کو جانے والے بدنصیب مسافروں کے حوالے شائع ہونے والی خبر کو غور سے پڑھ لیں ، جس میں بتایا گیا ہے ، مسافر آخری لمحات میں شدید اندھیرے میں موسیقی سے دل بہلا رہے تھے۔
ایک ماہ سے زائد ہوچلا کراچی لاہور اور اپنے آبائی شہر سکھر کی گرمی سے محفوظ رہنے کے لئیے مری کے اطراف کے پہاڑوں میں پناہ گزیں ہوں ، یہاں جب سے آیا ہوں جیکٹ مشکل سے ہی اتری ہے ، پورے یقین اعتبار اور ایمان سے کہتا ہوں امریکہ یورپ کے پہاڑی علاقے بشمول سوئزرلینڈ پاکستانی شمالی علاقوں کے سامنے باندیاں کنزییں بھی کہلانے کے قابل نہیں، مگر وہاں کی سہولیات نے انہیں جنت کا درجہ دے رکھا ہے ، یہاں یہ عالم ہے مری سے ایبٹ آباد تک بس مری کا ایک مال روڈ ہے جہاں کچھ سویلائزیشن نظر آتی ہے اور کہا جاسکتا ہے یہ کوئی مہذب بستی ہے ، مال روڈ سے نیچے اترتے ہی پاکستان شروع ہوجاتا ہے ، جہاں صورت حال یہ ہے اپنی قیام گاہ سے واک کرنے باہر نکلیے تو آٹھ سے دس کتے خدائی خدمت گار بن کر از خود ہی آپ کی حفاظت کی زمہ داری یوں سنبھال کر آپ کے ساتھ ہو لیتے ہیں “
گھر سے چلے تھے خوشی کی تلاش میں
غم راہ میں کھڑے تھے وہی ساتھ ہولئیے
مری سے نتھیا گلی تک اور اطراف میں دور سے دیکھنے کو ہزاروں ایسے مناظر ہیں کہ بس تکا کیجئے اور قدرت کی صلاحیتوں کی جسقدر تعریف کیجئے وہ کم ہے ،مگر ان مناظر اور علاقے کی خوبصورتی کو عام انسانوں کی پہنچ سے دور رکھنے کے تمام تر خصوصی انتظامات کیے گئے ہیں ، اگر کچھ نہیں کیا گیا تو بس اس خوبصورتی اور دنگ کردینے والے مناظر اور موسم کو دولت میں منتقل کرنے کا انتظام کیا گیا ہے نہ اہتمام ، خان صاحب جو سیاحت کو فروغ دیکر پاکستان کو مغرب و امریکہ کے شانہ بشانہ کھڑا کرنے کے دعوے کرتے تھے ، کے پی کے میں انکی دس سالہ حکومت کی کارکردگی کسی کو دیکھنا ہو تو وہ مری کے نواحی قصبے باڑیاں سے کے پی کے کی شروع ہونے والی سرحد سے نتھیا گلی تک گھوم آئے کہ جہاں کا موسم رنگ پھول خوشبو پہاڑ ندی نالے اور لوگ زمین پر قدرت کا حسین تحفہ ہیں ،مگر عمران خان نے اس خطے کو غالب کے اس شعر کی زندہ تصویر بنا دیا ہے
حیراں ہوں دل کو روؤں ، کہ پیٹوں جگر کو میں
مقدور ہو تو ساتھ رکھوں نوحہ گر کو میں
جاری ہے
Comments are closed.