سبز انقلاب اور آبی ذخائر

مجھے یاد ہے جنرل پرویز مشرف کا دور تھا انہوں نے نئی حکومت سنبھالی اورملک میں سبز انقلاب کا نعرہ لگایا، زراعت ‏کی بہتری کے لیے مختلف پروگراموں کا اعلان کیا گیا۔ میں بھی صحافت کے شعبے میں نیا تھا چونکہ کسان کا بیٹا ہوں ‏اورکئی سال اپنے ہاتھوں سے کھیتی باڑی بھی کی۔ میں نے اس وقت روزنامہ کائنات میں سبز انقلاب یا سبز باغ کے عنوان سے ‏مضمون لکھا تھا۔ بدقسمتی سے وہ ایک سبزباغ ہی ثابت ہوا کیونکہ جب تک حقائق کو مدنظر رکھ کراقدام نہیں اٹھائے جائیں ‏گے تب تک سبز انقلاب ممکن نہیں۔

زراعت سے مالا مال مملکت خداداد میں سبز انقلاب قدرت کی جانب سے برپا ہے لیکن ہم ‏نے 75 برسوں میں اس انقلاب کو قبول ہی نہیں کیا اور اس نعمت خداوندی سے جان بوجھ کر منہ موڑے رکھا۔ کبھی سبز ‏انقلاب، کبھی زراعت کی بہتری اور کبھی کسان پیکج کے نام پر بڑا کھیل کھیلا گیا۔ ایسے پروگرام شروع کرنے والوں اور ‏منصوبہ سازوں کی نیت پر شک نہیں لیکن نام نہاد ماہرین اور بیوروکریسی کی خیانت پر افسوس ہے جنہوں نے ادراک کے ‏باوجود حقائق کو چھپایا۔ اب میں سبز انقلاب کے ضامن کچھ حقائق آپ قارئین اور ارباب اختیار کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں۔

‏شعبہ شماریات کے مطابق ملک کا کل رقبہ7لاکھ 96 ہزار96 مربع کلو میٹر ہے جس میں سے کل قابل کاشت رقبہ 2کروڑ 27 لاکھ ہیکٹر ‏ہے۔ 39 لاکھ ہیکٹر پرجنگلات ہیں جب کہ 1 کروڑ 93 لاکھ ہیکٹر پر زراعت ہو رہی ہے۔ اگرپانی دستیاب ہو تو86 لاکھ ‏ہیکٹر رقبے کو قابل کاشت بنایا جا سکتا ہے۔ اب ملک میں نہری پانی کی دستیابی کا جائزہ لیتے ہیں انڈس ریورسسٹم اتھارٹی کے ‏ریکارڈ کے مطابق ملک بھر کے دریاوں میں پانی کی سالانہ اوسط آمد 13کروڑ 71 لاکھ ایکڑ فٹ ہے۔ اس وقت ملک میں پانی ‏ذخیرہ کرنے کی صلاحیت 1کروڑ34لاکھ ایکڑ فٹ ہے۔1991 میں تربیلا ڈیم، منگلا ڈیم اورچشمہ بیراج میں پانی ذخیرہ کرنے ‏کی صلاحیت 1 کروڑ 57 لاکھ ایکڑ فٹ تھی۔32 سال بعد اب تربیلا ڈیم، منگلا ڈیم اور چشمہ بیراج میں ریت بجری اور مٹی ‏بھرنے کے باعث پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت 23 لاکھ ایکڑ فٹ کم ہو گئی ہے۔

1991 میں سندھ طاس معاہدے کے مطابق ‏صوبوں میں پانی کی تقسیم 11 کروڑ 40 لاکھ ایکڑ فٹ کی تقسیم کا فارمولا طے پایا تھا، معاہدے کے مطابق اس مقصد کو پورا ‏کرنے کے لیے 2 بڑے ڈیم تعمیر کیے جانے تھے لیکن بدقسمتی سے 1976 کے بعد ڈیموں کی تعمیر ہر آنے والی حکومتوں کی ‏ترجیحات میں شامل نہیں تھی۔ ملکی زراعت کے لیے گیم چینجر منصوبہ کالا باغ ڈیم متنازعہ اورسیاست کی نذر ہونے کے ‏باوجود تعمیر ممکن تھی۔ مجھے ایک سنیئر آفیسر نے خان خوار ہائیڈرو الیکٹرک منصوبے کے دورے کے دوران بتایا کہ مرحوم ‏جنرل (ر) پرویزمشرف اپنے دور حکومت میں کالا باغ ڈیم کی تعمیر کے لیے عوامی نیشنل پارٹی کے سربراہ مرحوم ولی خان ‏سے مذاکرات کے لیے ان کے گھر گئے تو مزاکرات میں نہ کرنے کے بعد جب ولی خان مرحوم پرویز مشرف کو گاڑی تک ‏چھوڑنے آئے تو اس دوران انہوں نے کہا کہ جنرل صاحب مذاکرات کی میز پر کالا باغ ڈیم تعمیر نہیں ہوگا آپ اسے تعمیر کر لیں ‏کوئی کچھ بھی نہیں کرسکتا۔معلوم نہیں ایسی کون سی وجوہات تھیں کہ اس وقت کے طاقت ور ترین حکمران پرویز مشرف نے بھی خاموشی اختیار کر لی۔

اس وقت ملک کے  دو بڑے آبی ذخائر کی یہ صورتحال ہے کہ تربیلا ڈیم میں 102 فٹ ریت اور بجری ‏بھر چکی ہے ڈیم کا ڈیڈ لیول 1300 فٹ کے بجائے 1402 فٹ ہو چکا ہے یعنی 23 لاکھ ایکڑ فٹ پانی ناقابل استعمال ہوچکا ‏ہے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ تربیلا ڈیم کا ڈیڈ لیول ہر سال 3 سے 4 فٹ تک بڑھانا پڑے گا۔ سابق چیئرمین ارسا فتح اللہ گنڈا پورکی ‏سنہ 2000 میں تحریر کردہ رپورٹ منظرعام پرآئی جس میں انہوں نے انکشاف کیا کہ گلگت اوراسکردو کے درمیان کٹزرا کے مقام پر 3کروڑ ‏‏50 لاکھ ایکڑ فٹ پانی کی صلاحیت کا ایک ڈیم تعمیر کیا جا سکتا ہے جس سے نہ صرف 15 ہزار میگا واٹ بجلی بھی پیدا ہوگی ‏بلکہ کٹزرا ڈیم کی تعمیر سے دیامر بھاشا، تربیلا اور کالا باغ ڈیموں میں تمام سال وافر مقدار میں پانی بھی ذخیرہ ہو سکے گا ‏اور ان ڈیموں کی عمریں 100 سال بڑھ جائیں گی جبکہ کٹزرا ڈیم کی اپنی عمر کا تخمینہ 1000 سال لگایا گیا تھا۔ ارسا کے ‏سابق چیئرمین راوارشاد علی کی رپورٹ کے مطابق 1 ملین ایکڑفٹ پانی کی اکنامک ویلیو1 ارب ڈالرہے۔

ورلڈ بینک کی رپورٹ ‏کے مطابق سمندر کی زندگی کے لیے روزانہ صرف 5 ہزار کیوسک پانی کی ضرورت ہوتی ہے لیکن ملک میں محدود آبی ذخائر ‏کی وجہ سے سالانہ 27 ملین ایکڑ فٹ پانی سمندر میں ضائع ہوتا ہے یعنی بد قسمتی سے ہم پانی ذخیرہ نہ کرکے ملکی معیشت ‏کو 27 ارب ڈالر سالانہ کا نقصان پہنچا رہے ہیں۔ چشمہ، تونسہ، گدو اور سکھر بیراجز میں مٹی،ریت اور بجری بھرنے کے ‏باعث پانی ترسیل کرنے کی صلاحیت کم ہو گئی ہےاوردوسری جانب پانی چوری بھی عروج پرہے۔ سرکاری ریکارڈ کے مطابق ‏سالانہ 1کروڑ 90 لاکھ ایکڑ فٹ پانی یعنی 3 ڈیموں کے ذخیرہ جتنا پانی لاسز کی نذر ہو رہا ہے جس میں سے 70 لاکھ ایکر ‏فٹ پانی چوری ہو رہا ہے۔ پاکستان ایگری کلچر کونسل کی تحقیق کے مطابق بلوچستان کی 90 فی صد زمین زرعی سونا اگل ‏سکتی ہے۔  ہزراوں میل رقبے پر محیط گلگت بلتستان اور بلوچستان کے پہاڑوں پر ڈرائی فروٹ لگا کر ملک کو نہ صرف خود ‏کفیل کیا جا سکتا ہے بلکہ ایکسپورٹ کرکے وافر زرمبادلہ بھی کمایا جا سکتا ہے۔

پاکستانی زرعی سائنسدانوں نے چاول کی نئی ‏روائتی اقسام دریافت کی ہیں جن کی پیداوار 100 من فی ایکڑ تک ہے ان سے فائدہ اٹھا کر چاول کی فصل سے 10 ارب ڈالر ‏سالانہ کمائے جا سکتے ہیں۔ کپاس کی فصل پتوکی سے رحیم یار خان تک وائٹ گولڈ ثابت ہو سکتی ہے۔ کیلے کی نئی ورائٹی ‏کی ایکسپورٹ سے اربوں ڈالر کا زرمبادلہ کمایا جا سکتا ہے۔ بلوچستان میں دنیا کا بہترین زیتون اگایا جا سکتا ہے جس سے تیل 29 فی صد کی شرح سے حاصل کیا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ کلر کہار سے مری اور اٹک سے جہلم  تک کے علاقے میں بھی زیتوں ‏اگا کر ملکی معیشت میں انقلاب برپا کیا جا سکتا ہے۔ ہر کسان کو 1 یا 2 ایکڑ کینولا اور سویا بین کی کاشت کو لازمی قرار دے ‏کر اور کسان کو اچھی قیمت دے کرکے خوردنی تیل کی امپورٹ کا متبادل حاصل کیا جا سکتا ہے اور 10 سے 15 ارب ڈالر سالانہ ‏بچائے جا سکتے ہیں۔ یہ سب کچھ حاصل کرنے کے لیے پانی کی ضرورت ہے۔ لیکن پانی کو ذخیرہ کرنا ہماری ترجیحات میں ‏شامل ہی نہیں۔

ارسا کے سابق چیئرمین راو ارشاد علی اپنے دور میں چیختے چلاتے رہے کہ صرف 5 سال ملک کا سارا ‏ترقیاتی بجٹ منجمد کرکے پانی کا بڑا ذخیرہ تعمیر کر لیں اور 20 ملین ایکڑ فٹ کے آبی ذخائر کی تعمیر مکمل ہونے کے 5 ‏سال بعد ملک میں سبز انقلاب برپا ہو جائے گا۔ پھر نہ آئی ایم ایف کی محتاجی رہے گی نہ غربت بلکہ  پاکستان دنیا کو خوراک ‏فراہم کرنے والا اہم ملک اور مضبوط معیشت بن جائے گا۔ ملک کے سپہ سالار جنرل سید عاصم منیر کا سبز انقلاب کا خواب اور عملی اقدام قابل ‏تحسین لیکن اس انقلاب کے ثمرات حاصل کرنے کے لیے جنگی بنیادوں پر آبی ذخائر کی تعمیر بھی ناگزیر ہے۔ وقت کا تقاضا ‏ہے کہ جلد از جلد ایک قومی کانفرنس بلائی جائے قومی اتفاق رائے پیدا کرکے نئے آبی ذخائرتعمیر کیے جائیں۔ یہ اقدام ‏ایٹمی قوت کے بعد ملک کو ناقابل تسخیر ہونے کی بڑی ضمانت ہے۔ سپہ سالارقدم بڑھائیں اوررہتی دنیا تک وطن عزیز کو ‏خودمختار بنانے کا سہرا اپنے نام کر لیں۔

Comments are closed.