اسلام آباد:نیب ترامیم کیس میں حکومتی وکیل مخدوم علی خان نے دلائل مکمل کر لیے۔ خواجہ حارث نے کہا کہ ان ترامیم سے جرم تسلیم کرنے والوں کے جرائم بھی ختم ہوگئے ، اب پلی بارگین والوں کو بھی رقم واپس کرنا ہو گی۔ چیف جسٹس نے کہاکہ کیا زائد اثاثوں کو جرم کی کیٹگری سے ہی نکال دیں ، یہ تو احتساب کی ریڑھ کی ہڈی تھی۔
نیب ترمیم کے خلاف چیئرمین پی ٹی آئی کی درخواست پر سماعت ہوئی ۔ چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے ریمارکس دئیے کہ اب آمدن سے زائد اثاثے رکھنا اور بے نامی جائیداد رکھنا کوئی سنجیدہ جرم نہیں رہا۔جسٹس منصور علی شاہ بولے ،25 کروڑ عوام کے منتخب نمائندوں نے قانون سازی کی ،ہم 17غیر منتخب لوگ صرف آرٹیکل 8 کے تحت قانون سازی کا جائزہ لے سکتے ہیں۔
حکومتی وکیل مخدوم علی خان نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ماضی میں احتساب آرڈیننس اور نیب قوانین میں ترمیم کا اطلاق 1985 سے کیا گیا ۔چیف جسٹس نے کہاکہ نیب ترامیم میں بےنامی دارکی تعریف تبدیل کردی گئی،اب پراسیکیوشن ثابت کرے کہ کرپشن کےپیسے سے بے نامی جائیداد بنی یا نہیں۔مخدوم علی خان نے خورشید شاہ کیس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ نیب نے لوگوں کے لاکرز توڑے ،گھروں میں گھسے لیکن ملا کچھ نہیں۔ چیف جسٹس نے سوال کیا، جائیداد دبئی میں ہو تو سراغ کیسے لگایا جائے گا؟وکیل نے کہاکہ اب تو سوئٹزرلینڈ سے بھی معلومات مل جاتی ہیں۔
چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل خواجہ حارث نے دلائل دئیے کہ 2018 سے 2021 تک نیب نے تفتیش پر 18ارب روپے خرچ کیے ۔ پلی بارگین میں جو لوگ اپنا جرم تسلیم کر چکے،ترامیم سے ان کے کیس بھی ختم ہو گئے،اب پلی بارگین والوں کو بھی رقم واپس کرنا ہو گی۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے آپ نے بہت اہم نقطہ اٹھایا ہے، اس پر ہم حکومتی وکیل کو دوبارہ سنیں گے۔ عدالت نے سماعت کل تک ملتوی کر دی۔
Comments are closed.