ٹیکسوں میں اضافے کی تجویز کے خلاف ہزاروں مشتعل افراد نے منگل کے روز پارلیمان پر دھاوا بول دیا جب کہ ملک کے دیگر حصوں میں بھی ہنگامے پھوٹ پڑے ہیں۔ گزشتہ کئی دہائیوں میں حکومت کے خلاف عوام کی یہ شدید ترین ناراضی ہے۔
کینیا میں ٹیکسوں میں اضافے کے خلاف بڑے پیمانے پر ہنگامے پھوٹ پڑے ہیں۔ منگل کے روز ہزاروں افراد نے پارلیمان پر دھاوا بول دیا اور ایوان کو آگ لگا دی۔ قانون سازوں کو بڑی مشکل سے جان بچا کر بھاگنا پڑا۔ انہیں ایک سرنگ کے ذریعہ عمارت سے نکالا گیا۔ تاہم اس سے قبل انہوں نے ٹیکس میں اضافے کی تجویز کو منظوری دے دی۔
گزشتہ کئی دہائیوں میں پہلی مرتبہ حکومت کے خلاف عوام کی ایسی شدید ترین ناراضی دیکھنے کو ملی ہے۔ مشتعل مظاہرین نے ایک گورنر ہاوس کو بھی آگ لگادی، جب کہ سپریم کورٹ میں کھڑی گاڑیوں کو نذر آتش کردیا۔ ٹیکس بڑھانے کی تجویز دینے والے رکن پارلیمان کی سپر مارکیٹ اور ایک سٹی ہال کو بھی آگ لگا دی گئی۔ پولیس کی فائرنگ میں دس افراد کی ہلاکت کی اطلاع ہے جب کہ پچاس سے زیادہ زخمی ہوئے ہیں۔
دارالحکومت نیروبی سمیت ملک کے دیگر شہروں میں پولیس اور مظاہرین کے درمیان جھڑپیں ہوئیں۔ پولیس نے مظاہرین پر آنسو گیس کے شیل داغے اور پانی کی توپ چلائی۔
ریڈکراس کا کہنا ہے کہ کینیا مظاہروں میں ریڈ کراس کی گاڑیوں پر بھی حملے کیے گئے، حملوں میں اس کا عملہ اور امدادی اہلکار زخمی ہوئے۔
کینیا کے صدر ولیم روٹو، جو ان دنوں ملک سے باہرچھٹیاں منارہے ہیں، نے ان واقعات کو افسوس ناک قرار دیا۔ انہوں نے کہا،”آج کے واقعات ایک اہم موڑ کی نشاندہی کرتے ہیں کہ ہم ہماری قومی سلامتی کو لاحق خطرات کا کس طرح جواب دیتے ہیں۔” انہوں نے تشدد کے ان واقعات کو “غداری” قرار دیتے ہوئے ملک سے بدامنی کو “ہر قیمت پر” ختم کرنے کا عزم کیا۔
کینیا کے وزیر دفاع نے کہا کہ سکیورٹی ایمرجنسی میں پولیس کی مدد اور اہم بنیادی ڈھانچوں کی حفاظت کے لیے فوج کو تعینات کردیا گیا ہے۔
مقامی میڈیا کی رپورٹوں کے مطابق مظاہرین نے صدر ولیم روٹو سے مستعفی ہونے اور نئی حکومت کے قیام کا مطالبہ کردیا ہے۔
Comments are closed.