امریکی صدر جو بائیڈن نے خبردار کیا ہے کہ صدارتی استثنا سے متعلق سپریم کورٹ کے تاریخی فیصلے نے ایک خطرناک مثال قائم کی ہے جس کا فائدہ ڈونلڈ ٹرمپ منتخب ہونے کی صورت میں اُٹھائیں گے۔
اردو نیوز کے مطابق امریکی سپریم کورٹ نے فوجداری مقدمات میں سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو جزوی استثنیٰ دے دیا ہے ۔
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کو سابق صدر کی حیثیت سے اپنے خلاف مقدمات میں کچھ استثنا مل سکتا ہے۔سپریم کورٹ کے چھ ججوں نے ٹرمپ کے حق میں جبکہ تین ججوں نے مخالفت میں فیصلہ دیا۔
یہ فیصلہ ایک ایسے موقع پر سنایا گیا ہے جب امریکا میں ہونے والے عام انتخابات میں صرف چار ماہ رہ گئے ہیں، جس میں ٹرمپ کے مدمقابل ڈیموکریٹس کے امیدوار اور موجودہ صدر جو بائیڈن امیدوار ہیں۔
جو بائیڈن نے وائٹ ہاؤس میں اپنی تقریر میں کہا کہ آج کے فیصلے کا مطلب یہ ہے کہ صدر جو کچھ کر سکتا ہے اس کی کوئی حد نہیں۔ یہ بنیادی طور پر ایک نیا اُصول اور ایک خطرناک مثال ہے۔
جو بائیڈن نے کہا کہ امریکی عوام کو فیصلہ کرنا ہو گا کہ کیا وہ اب یہ جانتے ہوئے ایک بار پھر ڈونلڈ ٹرمپ کو ملک کی صدرات سونپنا چاہتے ہیں کہ وہ جو کچھ کرنا چاہتے ہیں اور جب کرنا چاہتے ہیں اس پر اُن کی حوصلہ افزائی کی جائے گی۔دوسری جانب ڈونلڈ ٹرمپ نے اس فیصلے کو بڑی کامیابی اور فتح قرار دیا ہے۔
چیف جسٹس جان رابرٹس نے اپنے فیصلے میں کہا کہ ایک صدر قانون سے بالاتر نہیں ہے تاہم اسے اپنے عہدے پر فائز رہتے ہوئے سرکاری کارروائیوں کے لئے فوجداری مقدمات سے مکمل استثنا حاصل ہے، اس لیے صدر پر اپنے بنیادی آئینی اختیارات کے استعمال پر مقدمہ نہیں چلایا جا سکتا۔انہوں نے کہا کہ جہاں تک صدر کی غیر سرکاری یا نجی کارروائیوں کا تعلق ہے تو وہاں کوئی استثنا نہیں۔
چیف جسٹس نے کیس کو یہ کہہ کر زیریں عدالت میں بھیج دیا کہ وہ اس بات کا تعین کریں کہ سابق صدر پر لگائے گئے الزامات میں سے کون سا سرکاری اور کون سا نجی نوعیت کا ہے۔
تین ججوں نے فیصلے سے اختلاف کیا اور جسٹس سونیا سوٹومائیر نے کہا کہ ہماری جمہوری تاریخ میں کبھی بھی کسی صدر کو اس بات پر یقین نہیں رہا کہ اگر وہ فوجداری قانون کی خلاف ورزی کے لیے اپنے دفتر کا استعمال کرتے ہیں تو وہ فوجداری مقدمے سے محفوظ رہیں گے۔انہوں نے کہا کہ یہ بات ہماری جمہوریت کے لیے خطرہ ہے اور اسی لیے میں فیصلے سے اختلاف کرتی ہوں۔
Comments are closed.