بنگلہ دیش میں وزیرِ اعظم شیخ حسینہ کے مستعفی ہونے کا مطالبہ کرنے والے مظاہرین اور حکومت کے حامیوں کے درمیان جھڑپوں میں لگ بھگ 55 افراد ہلاک ہو گئے ہیں۔
خبر رساں ادارے ‘اے ایف پی’ کے مطابق پولیس نے دعویٰ کیا ہے کہ ایک مشتعل ہجوم لاٹھیاں اور ڈنڈے اٹھائے دارالحکومت ڈھاکہ کے مرکزی باغ اسکوائر پر جمع ہوا۔
رپورٹس کے مطابق دیگر بڑے شہروں میں بھی مظاہرین سڑکوں پر نکلے۔ ان مظاہروں میں بھی جھڑپیں ہوئی ہیں۔
پولیسکے مطابق حکمران جماعت کے کارکنوں اور احتجاج میں شامل طلبہ کے درمیان جھڑپیں ہوئی ہیں۔
خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کے مطابق حکومت نے ملک بھر میں غیر معینہ مدت کے لیے کرفیو نافذ کر دیا ہے جب کہ پیر سے تین دن کے لیے عام تعطیل کا بھی اعلان کر دیا گیا ہے۔
رپورٹس کے مطابق کئی شہروں میں انٹرنیٹ سروس معطل کر دی ہے۔
انٹرنیٹ فراہم کرنے والی کمپنیوں کا کہنا ہے کہ حالیہ دنوں میں دوسری بار تیز رفتار انٹرنیٹ کو بندش کا سامنا ہے۔
اطلاعات کے مطابق صارفین کو میسجنگ سروس واٹس ایپ اور سوشل میڈیا ویب سائٹ فیس بک تک رسائی میں بھی دشواری ہے۔
رپورٹس کے مطابق حکومت مخالف احتجاج میں شامل طلبہ نے ملک میں کئی شاہراہوں کو بھی بلاک کر دیا ہے۔
دوسری جانب یہ اطلاعات بھی موصول ہو رہی ہیں کہ شیخ حسینہ کے استعفے کا مطالبہ کرنے والے طلبہ ’عدم تعاون تحریک‘ شروع کرنے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔
حکومت نے مظاہرین کو فسادی قرار دیا ہے۔
’رائٹرز‘ کے مطابق وزیرِ اعظم شیخ حسینہ نے نیشنل سیکیورٹی پینل کی میٹنگ کے دوران گفتگو میں کہا کہ احتجاج کرنے والے اب طلبہ نہیں ہیں بلکہ یہ دہشت گردی ہیں جو ملک کو عدم استحکام کی جانب لے جانا چاہتے ہیں۔
Comments are closed.