اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق کے دفتر نے تصدیق کی ہے کہ ایران میں جولائی میں 38 افراد کو پھانسی دی گئی ، جس سے اس سال پھانسیوں کی کل تعداد کم از کم 345 ہو گئی ہے۔
ان میں پندرہ خواتین سمیت ،زیادہ تر سزائیں منشیات یا قتل کے جرم میں دی گئیں۔
یو این کے حقوق کے دفتر کی ترجمان لِز تھروسل نے جمعہ کو اقوام متحدہ کی ایک بریفنگ میں بتایا کہ ” قتل میں دانستہ طور پر ملوث نہ ہونے سے متعلق جرائم کے لیے سزائے موت کا نفاذ انسانی حقوق کے بین الاقوامی اصولوں اور معیار سے مطابقت نہیں رکھتا۔”
ترجمان نے کہا کہ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ہائی کمشنر وولکر ترک کو ان رپورٹس پر سخت تشویش ہے کہ ایرانی حکام نے اس ہفتے دو دنوں کے دوران، مبینہ طور پر ملک بھر میں کم از کم 29 افراد کو پھانسی دی۔
تھروسیل نے کہا کہ کرد، عرب اور بلوچ سمیت، اقلیتیں پھانسیوں سے غیر متناسب طور پر متاثر ہوئیں۔ کچھ قیدیوں کو ان کے خاندان یا وکیلوں کو مطلع کیے بغیر پھانسی دے دی گئی۔
ایران ہیومین رائٹس ،آئی ایچ آر کے ڈائریکٹر محمود امیری مقدم نے کہا ہے کہ آنے والے مہینوں میں سینکڑوں افراد بین الاقوامی برادری کی جانب سے کسی فوری رد عمل کے بغیر اسلامی جمہوریہ کی ہلاکتی مشین کا شکار بن سکتے ہیں ۔
آئی ایچ آر نے زور دے کرکہا کہ ایران میں حالیہ برسوں میں اس پیمانے کی اجتماعی پھانسی کی کوئی مثال موجود نہیں ہے۔ اس کی مساوی پھانسیوں کی آخری مثال 2009 میں ملتی ہے ۔
اقوام متحدہ کو ایک عرصے سے ایران میں پھانسیوں کے بارے میں تحفظات ہیں، اور اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوٹیرس نے نومبر میں ایک رپورٹ جاری کی تھی جس میں اسلامی جمہوریہ میں پھانسیوں کی “خطرناک شرح” کی مذمت کی گئی تھی۔
Comments are closed.