مقبوضہ جموں و کشمیر میں اسمبلی انتخابات کرانے کا بھارتی اعلان

تحریر : محمد شہباز

بھارتی الیکشن کمیشن نے بالآخر مقبوضہ جموں وکشمیر میں اسمبلی انتخابات کرانے کا اعلان کر ہی دیا ہے،جو بھارت نواز جماعتوں کیلئے خد ا خدا کرکے کفر ٹوٹا ہے کے مصداق ہے۔ مقبوضہ جموںوکشمیرمیں آخری مرتبہ 2014میں ریاستی اسمبلی انتخابات ہوئے تھے۔جس کے بعد نریندرا مودی کی جماعت بی جے پی نے پیپلز ڈیموکریٹک پارٹیPDP کیساتھ مل کر اتحادی حکومت قائم کی تھی۔جسے ایجنڈا آف الائنس کا نام دیا گیا۔حالانکہ پی ڈی پی سربراہ مفتی سعید نے پوری الیکشن کمپین بی جے پی کے خلاف اس نعرے پر چلائی تھی کہ مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے انہیں کامیاب کرانا ضروری ہے اور اس نعرے نے انہیں بڑی حد تک سیٹوں کی عددی برتری بھی دلائی ۔ظاہری بات ہے کہ انہیں سہارے کی ضرورت تھی ،جس کیلئے قرعہ فعال بی جے پی ہی کیلئے نکلا۔وزارت اعلی کا ہما مفتی سعید کے سر رکھاگیا،گوکہ وہ پہلے بھی کانگریس کیساتھ ڈھائی سالہ وزارت اعلی کی میوزیکل چیئر کے مزے لوٹ چکا تھا۔ دسمبر 2015 میں سرینگر میں ایک عوامی جلسے میں مفتی سعید کو اسوقت ہزیمت اور سبکی کا سامنہ کرنا پڑا تھا جب نریندرا مودی نے اپنی تقریر میں کہا کہ انہیں مسئلہ کشمیر کے سلسلے میں کسی کی مشاورت کی ضرورت نہیں ہے۔ مفتی سعید نے اسی جلسے میں مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے پاکستان اور بھارت کے درمیان بات چیت یا مذاکرات کی وکالت کی تھی۔مبصرین کا کہنا ہے کہ بھاجپا کیساتھ گٹھ جوڑ کرکے مفتی سعید نے تاریخی غلطی کی جس کا خمیازہ ریاستی درجے کی تنزلی اور جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کے چھن جانے کی صورت میں بھگتنا پڑا۔ انکا مزید کہنا ہے کہ مفتی سعید ، اپنے سیاسی تجربے کے باوجود نریندر مودی اور بھاجپا کے عزائم کو سمجھنے میں ناکام رہے۔جنوری 2016 میں مفتی سعید کئی دنوں تک بیمار رہنے کے بعد چل بسے،تو محبوبہ مفتی نے وزارت اعلی کی بھاگ ڈور سنبھالی،چونکہ پی ڈی پی اور بی جے پی کا شروع دن سے غیر فطری اتحاد تھا لہذا نہ ان کے خیالات ایک دوسرے کیساتھ میل کھاتے تھے اور نہ ہی نظریات۔لاوا اندر خانے پک چکا تھا اور 19 جون سنہ 2018 میں بی جے پی کی جانب سے جموں وکشمیر حکومت سے الگ ہونے کے اعلان کیساتھ ہی محبوبہ مفتی اپنے عہدے سے مستعفی ہوگئیں، جس کے بعد مقبوضہ جموں کشمیر میں گورنر راج کا نفاذ عمل میں لایا گیا اور پھر دسمبر 2018 میں صدارتی راج نافذ کیا گیا۔ محبوبہ مفتی ریاست کی ناکام ترین وزیر اعلی ثابت ہوئیں کیونکہ انکے دور اقتدار میں08 جولائی 2016میں افسانوی شہرت کے حامل اور تحریک مزاحمت کی علامت سمجھے جانے والے برہان وانی کا ماورائے عدالت قتل کیا گیا،جس نے پورے مقبوضہ جموں وکشمیر میں ایک نئے انتفاضہ کو جنم دیا ،جس میں سینکڑوں کشمیری نوجوان بھارتی گولیوں کا نشانہ بنے اور پھر محبوبہ مفتی نے اس وقت کے بھارتی وزیر داخلہ راجناتھ سنگھ کیساتھ سرینگر میں ایک پریس کانفرنس میں رعونت سے بھرپور انداز میں کہا تھا کہ شہید کشمیری بچے بھارتی فوجی کیمپوں پر کیا دودھ اور ٹافیاں لینے گئے تھے۔جس پر کشمیری صحافیوں نے سخت ردعمل کا مظاہرہ کرکے ان کی چائے پینے سے انکار کیا تھا۔
مقبوضہ جموں و کشمیر میں اسمبلی انتخابات پورے دس برسوں کے بعد منعقد ہونے جارہے ہیں۔ان دس برسوں میں کشمیری عوام کیساتھ پتھر کے زمانے کا سلوک روا رکھا گیا ۔بھارت سے تھوک کے حساب سے اعلی آفیسران کو یہاں لاکر کشمیری عوام پر مسلط کیا گیا۔تمام اہم عہدوں پر بھارتی آفیسران تعینات کیے گئے اور کشمیری ملازمین بالعموم اور آفیسران بالخصوص کھڑے لائن لگائے گئے۔یہاں تک کہ 05 اگست 2019 میں مقبوضہ جموں وکشمیر کی خصوصی حیثیت سے متعلق دو اہم شقوں 370اور 35اے کو بیک جنبش قلم ایک صدارتی فرمان کے ذریعے ختم کرکے اس سے دو حصوں جموںو کشمیر اور لداخ پر مشتمل مرکز کے زیر انتظام یونین ٹیریٹری بنادیا گیا ۔گوکہ 2019 سے پہلے بھی مقبوضہ جموں وکشمیر کا انتظام و انصرام بھارتی حکومت کے مقرر کردہ گورنر کے ذریعے چلایا جارہا ہے لیکن5 اگست 2019 میں غیر قانونی اور غیر آئینی اقدامات کے بعد جموںو کشمیر اور لداخ میں لیفٹیننٹ گورنر وں کی تقرریاںعمل میں لائی گئیں۔05اگست 2019 کے بعد یہاں نت نئے قوانین نفاذ کیے گئے ،جن میں غیر ریاستی باشندوں یعنی ہندوئوں کو مقبوضہ جموں وکشمیر کا ڈو میسائل کا حقدار ٹھرایا گیا اور آج کے دن تک بیالیس لاکھ ڈومیسائل کا اجرا کیا جاچکا ہے۔بدنام زمانہ قانون UAPA کی آڑ میں کشمیری عوام کو اپنے ہی وطن میں اجنبی اور تمام اختیارات سے محروم کیا گیا ہے۔درجنوں کشمیری مسلمان ملازمین کو ان کی نوکریوں سے برخاست کیا گیا۔جائیداد واملاک اور رہائشی مکانوں پر ہر دوسرے دن قبضہ کرنا معمول بن چکا ہے۔اہل کشمیر کی سانسوں پر پہرے بٹھائے گئے۔لیفٹیننٹ گورنر کو اختیارات کے نام پر ریاست کا مختار کل بنادیا گیا ہے ۔جس سے مستقبل کا خاکہ اس بات کی بذات خود وضاحت کرتا ہے کہ مودی کے عزائم کس قدر بھیانک اور خوفناک ہیں۔
پھر حد بندی کمیشن کے نام پرصوبہ جموں جو کہ چند ایک اضلاع کے علاوہ ہندو اکثریتی ہے اسمبلی سیٹوں کی تعداد 107 سے بڑھا کر 114 کردی گئی۔جموں کے حصے میں 6 جبکہ مقبوضہ وادی کشمیر کو صرف ایک اضافی نشست دی گئی ہے۔جس کے بعد وادی کشمیر کی کل 47 نشستیں ہیں جبکہ جموں کی 43 نشستیں ہو ں گی۔ یعنی 04 نشستوں کا اب صرف فرق باقی رہ گیا ہے۔جبکہ 24 نشستیں علامتی طور پر آزاد جموں کشمیر کیلئے ہیں۔جو کنٹرول لائن معرض وجود میں آنے کے بعد رکھی گئی ہیں۔ان تمام اقدامات کا مقصد اس کے سوا اور کچھ نہیں ہے کہ کشمیری عوام پر ہندو وزیر اعلی مسلط کرکے 05 اگست2019 میں مقبوضہ جموں وکشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کو ریاستی اسمبلی سے توثیق کرائی جائے۔مگر اس سادگی پر کون نہ مرجائے اے خدا ابھی عشق کے امتحان اور بھی ہیں۔رواں برس مئی میں بھارتی پارلیمانی انتخابات مقبوضہ جموںو کشمیر میں بھی کرائے گئے اور چشم فلک نے یہ نظارہ بھی خوب دیکھا کہ بی جے پی کو مقبوضہ وادی کشمیرمیں امیدار تک نہیں ملا۔ریاستی اسمبلی انتخابات میں صورتحال یکسر مختلف نہیں ہوگی کیونکہ بھارتی پارلیمانی انتخابات میں جیل کا بدلہ ووٹ سے۔ ظلم کا بدلہ ووٹ سے اور جبر کا بدلہ ووٹ سے نعرے ہر سو گونج چکے ہیں اور پھر شمالی کشمیر میں بھارت کی تہاڑ جیل میں گزشتہ پانچ برسوں سے قید کاٹنے والے انجینئر رشید کی کامیابی نے سیاسی پنڈتوں کو بہت کچھ سوچنے پر مجبور کیا۔

بھارتی الیکشن کمیشن کے مطابق مقبوضہ جموں کشمیر میں آئندہ ماہ 18 ستمبر سے تین مراحل میں انتخابات ہوں گے اور 4 اکتوبر کو گنتی کا آغاز ہو گا جبکہ 6 اکتوبر کو نتائج کا اعلان کیا جائے گا۔ لیفٹیننٹ گورنر کی موجودگی میں وزیر اعلی برائے نام اور ریاستی اسمبلی ایک ربڑ سٹمپ کی مانندہوگی۔یہی وجہ ہے محبوبہ مفتی نے حال ہی میں اس بات کا اعادہ کیا ہے کہ وہ اسمبلی انتخابات میں حصہ نہیں لیں گی کیونکہ علاقے کی حیثیت محض ایک میونسپلٹی کی سی رہ گئی ہے ۔محبوبہ مفتی کا اس سلسلے میں کہنا تھا کہ جموں و کشمیر کا اپنا آئین، جھنڈا اور ایک مضبوط قانون ساز اسمبلی تھی۔ موجودہ منظر نامے میں جہاں وزیر اعلی زیادہ تر فیصلوں کیلئے لیفٹیننٹ گورنر سے اجازت کے مرہون منت ہوں گے، ایسے میں الیکشن میں شرکت کرنا ان کیلئے مشکل ہی نہیں ناممکن بھی ہے۔ جبکہ نیشنل کانفرنس کے نائب صدر عمر عبداللہ جو ماضی میں ایسے ہی خیالات کا اظہار کرچکے تھے ،چند روز قبل بھارت کے بڑے میڈیا گروپ NDTVکو انٹرویو میں اپنے فیصلے پر قائم رہنے کے سوال کے جواب میں سر ہلایا ہے۔
مودی اور اس کے دوسرے قبیل کا مقبوضہ جموں و کشمیر میں ریاستی اسمبلی انتخابات کرانے کا دور دور تک کوئی منشا اور رضا مندی نہیں تھی لیکن آرٹیکل 370 کی منسوخی کو جب بھارتی سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا جس پر سماعت کے بعد دسمبر 2023 میں فیصلہ سناتے ہوئے بھارتی سپریم کورٹ نے مودی حکومتی فیصلے کو انصاف کا خون کرکے اگر چہ برقرار رکھا لیکن ساتھ ہی جموں کشمیر میں30ستمبر 2024 سے پہلے پہلے ریاستی اسمبلی انتخابات کروانے کے ا حکامات صا در کیے۔یہی وجہ ہے کہ مودی کوانتخابات کا اعلان کروانے کاکھڑوا گونٹ پینا ہی پڑا۔حالانکہ مودی انتخابات سے قبل ریاست کا درجہ بحال کرانے کا اعلان کرچکا تھا ،گو کہ مقبوضہ جموں وکشمیر میں انتخابات کا بگل بج چکا ہے البتہ ریاستی درجے کی بحالی کااعلان نہیں کیا گیا۔بھارتی حکومت مقبوضہ جموں وکشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کے بعد سے کشمیری عوام میں پائے جانیوالے غم وغصے کے باعث یہاں اسمبلی انتخابات کرانے سے انکارکرتی رہی ہے ۔کشمیری عوام کی طرف سے مسترد کئے جانیوالے کے حوالے سے مودی حکومت کے تحفظات کی تصدیق حالیہ بھارتی لوک سبھاانتخابات کے دوران بھی ہوئی ہے جب BJP کو مقبوضہ وادی کشمیرمیں کوئی انتخابی امیدوار نہیں مل سکااور اسکی حمایت یافتہ جماعتوں کو بھی انتخابات میں شکست کا منہ دیکھناپڑا۔مقبوضہ جموں وکشمیر میں ایک ایسے وقت میں ریاستی اسمبلی انتخابات کرائے جارہے ہیں جب پوری آزدای پسند قیادت بشمول خواتین رہنما بھارتی جیلوں میں قید وبند کی صعوبتوں سے گزر رہی ہیں۔جماعت اسلامی مقبوضہ جموں وکشمیر کو بندوق کی نوک پرانتخابات میں گھسیٹا جارہا ہے،حالانکہ جماعت اسلامی برسوں پہلے نہ صرف پابندیوں میں جکڑی جاچکی ہے بلکہ امیر جماعت داکٹر عبدالحمید فیاض سے لیکر سینکڑوں اراکین اور دوسرے رہنما بھارتی جیلوں میں بند ہیں۔ان کے تعلیمی و فلاحی اداروں کو قبضے میں لیا جاچکا ہے،جس سے ہزاروں بچے متاثر ہوچکے ہیں۔ایسے میں ان بھارتی انتخابات کی کیا ساکھ ہوگی اور انہیں قبولیت کا درجہ عطا کرنا خود کو ننگا کرنے کے مترادف ہوگا۔بھارت نے ہر دور میں انتخابی ڈراموں سے مسئلہ کشمیر کی عالمی سطح پر ہیئت اور اہمیت کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی ہے۔حالانکہ مسلہ کشمیر اور انتخابات کا آپس میں کوئی تعلق نہیں ہے ۔مسئلہ کشمیر گزشتہ 77برسوں سے ایک متنازعہ مسئلہ ہے ،جس پر ایک یا دو نہیں بلکہ ڈیڑھ درجن سے زائد قراردادیں آج بھی دنیا کے سب سے بڑے عالمی فورم اقوام متحدہ میں عملدر آمد کی منتظر ہیں اور بھارتی حکمران خود مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ میں لیکر گئے اور پھر پوری دنیا کو گواہ ٹھرا کر کشمیری عوام کو ا زادانہ اور غیر جانبدارانہ رائے شماری کے ذریعے ا پنے سیاسی مستقبل کا فیصلہ خود کا موقع فراہم کرنے کا اعلان کیا ہے۔طویل عرصہ گرزنے اور کئی نسلیں اس مسئلے کی نظر ہوچکی ہیں البتہ مسئلہ کشمیر آج بھی حل طلب ہے ،جس نے اس پورے خطے کو عدم استحکام اور خطرات سے دوچار کیا ہے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ بھارتی حکمران جو اس پورے خطے میں ہندتوا کا خواب دیکھ رہے ہیں مگر انہیں قدم قدم پر ناکامی و رسوائی کا سامنا ہے ،ضد اور ہٹ دھرمی پر مبنی سیاست ترک کرکے مسئلہ کشمیر کواس کے تاریخی پس منظر اور اہل کشمیر کی امنگوں کے مطابق حل کریں تاکہ یہ خطہ جو صدیوں سے بدتریں صورتحال سے جوجھ رہا ہے ،امن و استحکام کا گہوارہ بن سکے اور اس خطے میں رہنے والے لوگ بھی امن و سکون کی زندگی بسر کرسکیں۔

Comments are closed.